گلگت بلتستان عبوری صوبہ سیاسی جماعتوں کی مخالفت

گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی بازگشت سنائی دیتے ہی آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں نے ایسے کسی بھی فیصلے کی مخالفت پرکمر کس لی ہے ۔آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں میں مشترکہ سرگرمیاں یہ بتارہی ہیں کہ ان جماعتوں اور سیاسی خانوادوں نے ماحول میں کسی اہم فیصلے کی بُو محسوس کی ہے۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی کور کمیٹی کے راولپنڈی میں منعقد ہ اجلاس میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کو مسئلہ کشمیر سے کھلی دستبرداری قراردیا گیا ہے ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ گلگت بلتستان پر عالمی ادارے کی قراردادوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس علاقے کی آئینی حیثیت کاتعین کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں ،ریاست جموں وکشمیر کے عوام کی قومی خواہشات ،احساسات اور مسئلہ کشمیر پرپاکستان کے قومی اور تحریک آزادی کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جماعت اسلامی آزادکشمیر نے بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے ۔دوسری طرف آزادکشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ایسے کسی بھی منصوبے سے لاعلمی کا اظہا ر کیا ہے ۔آگلگت بلتستان اوراس کی صوبائی حیثیت علاقے کے لوگوں کے لئے خواب اور سراب کی مانند ہے ۔مدتوں گلگت بلتستان کے عوام اس سراب کا تعاقب کرتے رہے ہیں مگر اب بھی وہ اس منزل کے قریب نہیں پہنچے ۔ہر انتخاب میں وفاقی سیاسی جماعتوں نے اس خطے کے عوام کو صوبہ بنانے کا خواب دکھایا مگر یہ خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہوسکا ۔پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے 2009میں گلگت بلتستان امپاورمنٹ آرڈر منظور کرکے اس علاقے کے صوبائی خد وخال اُبھارے ۔مسلم لیگ ن نے سینیٹر سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کرکے اس سمت میں مزید پیش رفت کی کوشش کی ۔ہر دو کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں بالترتیب پہلے پیپلزپارٹی اور بعدازاں مسلم لیگ ن کامیاب ہوئیں ۔ گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں پی ٹی آئی نے بھی گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا ۔وزیر اعظم عمران خان بنفیس نفیس یہ اعلان کرنے گلگت کے دورے کے دوران گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیاتھا۔یوں نہ کہتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ گئے تھے ۔بلاول بھٹو زرداری جواسلام آباد میں وفاقی حکومت پر تقسیم کشمیر کی سازش کرنے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی سازش کا دبے لفظوں میں اعلان کر رہے تھے گلگت پہنچے توجب انہیں اندازہ ہوا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا آزادکشمیر کے ووٹروں کی مخالفت مول لینے کے مترادف تو ہو سکتا ہے مگر گلگت میں یہ مقبول لہر پر سوار ہونے کا آسان طریقہ ہے ۔اس لہر پر پی ٹی آئی سوار ہورہی تھی کہ بلاول نے دوقدم آگے بڑھ کر گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ بنانے کا اعلان کیا ۔گلگت کے عوام کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ گلگت بلتستان بھلے سے آزادکشمیر کا حصہ نہ ہو مگر یہ ریاست اور وسیع تر تنازعے کا حصہ ضرور ہے۔ 1947کو تقسیم ہونے والی ریاست کے دوحصے تھے ۔جس وقت گلگت بلتستان آزاد ہوا پورے کشمیر کی طرح اس وقت یہ ڈوگرہ حکمرانی کا حصہ تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ اس ریاست کے سربراہ تھے اور ریاست کا پورا نام” ریاست جموں وکشمیر تبت ہا”تھا اور تبت ہا کا مطلب گلگت بلتستان اور لداخ کے شمالی علاقہ جات تھا۔تقسیم کے وقت یہاں مہاراجہ کا مقرر کردہ گورنر بریگیڈئر گھنسار اسنگھ تھا ۔آزادکشمیر اور گلگت میں شروع ہونے والی الل ٹپ اور الگ الگ مزاحمت نے دونوں مقامات پر ڈوگرہ حکمرانی کا خاتمہ کیا یہاں آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر کے نام سے ایک متوازی اور انقلابی حکومت قائم ہوئی ۔جب حریت پسندوں نے کچھ رقبہ آزاد کرایا تو اس علاقے پر اصل متوازی اور انقلابی حکومت کا قیام سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں ہی عمل میں لایا گیا ۔اس ابتدائی دور میں فاصلوں اور دوریوں کے باعث آزادکشمیر کی نوزائیدہ حکومت گلگت بلتستان پر اپنا کنٹرول قائم نہیں کر سکتی تھی اس لئے کچھ ہی عرصہ بعد گلگت بلتستان کا کنٹرول عبوری طور پر ایک معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو سونپا گیا ۔اس کے بعد سے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر ایک دریا کے دو کناروں کی طرح ہیں ۔گلگت بلتستان کے عوام اپنے لئے جس بات کو تریاق سمجھتے ہیں آزادکشمیر کے عوام کے نزدیک یہ زہر ہے۔بیانیوں کی اس خلیج کی وجہ دونوں علاقوں کے درمیان طویل مدت سے چلا آنے والا رابطوں کا فقدان ہے۔رابطوں کے فقدان سے حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے ۔گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان ایک ہی قضیے کا حصہ ہیں ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ۔گلگت بلتستان کو اس اصل تناظر سے کاٹنے والے مسئلہ کشمیر کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں اور اسے کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ایسے میں وفاقی حکومت کو مسلم کانفرنس سمیت آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی بات کو توجہ سے سننا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ابابیل فورس کی ناکامی