عمران خان کو اصل خطرہ کس سے ہے؟

جب سے اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلی ہے تب سے ان کے لب و لہجے میں امریکہ اور مغربی ممالک کے خلاف تنقیدی بیانات میں بھی تیزی آئی ہے اور خاص طور پر میلسی میں منعقدہ ایک جلسہ عام میں انہوں نے جس طرح یورپی یونین کے سفیروں کی طرف سے لکھے گئے خط کا جوا ب ان کو خوب لتاڑتے ہوئے سر عام دیا کہ ہم یورپ کے غلام نہیں ہیں کہ وہ ہمیں سوالنامے بھیجیںجبکہ کشمیر کو ہڑپ کرنے پر وہ بھارت سے ایسے جواب کیوں نہیں مانگتے، اس نے نہ صرف امریکہ اور یورپ کو چونکا دیا بلکہ پاکستانی عوام کو بھی ورطۂ حیر ت میں ڈال دیا کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستانی معیشت نہایت زبوں حالی کا شکار ہے اور وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے قرض لینے پر مجبور ہے اس کے علاوہ تمام شرائط پر عملدرآمد کے باوجود ابھی تک ایف اے ٹی ایف کی لسٹ سے باہر نہیں نکل سکا تو ان حالات میں امریکہ اور یورپ کو للکارنا کسی طور بھی عقلمندی نہیں بلکہ انہیں اور اشتعال دلانے کے مترادف ہے۔
اس سے پہلے بھی انہوں نے قوم سے نشری خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرویز مشرف کو امریکہ کے حوالے سے بدنام کیا جاتا ہے لیکن اس کے دور میں صرف 14ڈرون حملے ہوئے مگر آصف علی زرداری اور نواز شریف دونوں کے ادوار میں400امریکی ڈرون حملے ہوئے اور یہ سب کچھ ان دونوں کی رضامندی سے ہوتا رہا اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ چونکہ ان دونوں حکمرانوں کی جائیدادیں اور پیسہ باہر پڑا ہوا ہے لہذا یہ ان کے احکامات ماننے پر مجبور ہیں لیکن چونکہ میرا کوئی پیسہ باہر نہیں ہے اس لئے میں ان کا پابند نہیں ہوں اور یہی وجہ ہے کہ مرے دور میں امریکہ نے ایک بھی ڈرون حملہ نہیں کیا۔ دو روز قبل بھی ان کا بیان آیا کہ اگر اب امریکہ نے کوئی ڈرون حملہ کیا تو میں اپنی فضائیہ کو مار گرانے کا حکم دوں گا۔
عمران خان کے امریکہ اور یورپ پر تابڑ توڑ بیانات پر عوامی و سیاسی حلقوں میں ایک بحث چھڑ گئی ہے کہ ان کی اچانک بدلتی ہوئی خاجہ پالیسی کے پیچھے کیا مقاصد اور محرکات ہیں۔ خود عمران خان ، اس کی پارٹی اور وزراء اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے عالمی سازش کی بو سونگھتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب سے عمران خان نے روس کا دورہ کیا ہے اور آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی ہے تو اس سے امریکہ اور یورپ اس سے ناراض ہو گیا ہے اور یہ سب اس کو ہٹانے کے درپے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اور اطلاعات و نشریات کے وزیر فواد چوہدری اور پی ٹی آئی کے حامی کئی تجزیہ نگار اس بات کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ عمران خان بعض عالمی طاقتوں کو کھٹک رہے ہیں جبکہ اپوزیشن اسے اس کی اپنی ناکامی اور نا لائقی قرار دے رہی ہے جیسا کہ مسلم لیگ ن کے شہباز شریف نے مشترکہ پریس کانفرنس میں عالمی سازش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیا پاکستان میں مہنگائی کے پیچھے بھی عالمی سازش ہے کیا اسکے جھوٹے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے پیچھے بھی عالمی سازش ہے، کیا ملک کو کنگال کرنے کے پیچھے بھی عالمی سازش ہے یہ سب اس کی نالائقیوں کا شاخسانہ ہے۔
بلاول بھٹو نے بھی گوجرخان میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان امپائر کی انگلی سے اقتدار میں آیا اور اب وہ ہمیں یورپ سے لڑوانا چاہتا ہے۔ ملکی حالات پر نظر رکھنے والے بہت سے تجزیہ کار اسے عمران خان کی ہیرو بننے کی دانستہ کوشش قرار دیتے ہیں ان کے خیال میں جب بھی کوئی پاکستانی حکمران اپنا اقتدار ہاتھ سے جاتا ہوا دیکھتا ہے تو وہ امریکہ اور یورپ کے خلاف تند و تیز بیانات دینا شروع کر دیتا ہے اس سلسلے میں وہ بھٹو کی مثال پیش کرتے ہیں جب ان کے خلاف پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی اور انہیں اپنا اقتدار جاتا ہوا محسوس ہوا تو انہوں نے بھی امریکہ اور یورپ کے خلاف اس طرح کے دھواں دھار بیانات دینے شروع کر دیئے تھے اور ان کو للکارنا شروع کر دیا تھا جس طرح آج عمران خان کر رہے ہیں۔
عمران خان کو اتنا خطرہ اپوزیشن سے نہیں ہے جتنا خطرہ انہیں اپنی پارٹی کے لوگوں سے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عمران خان سے کسی طور پر بھی مطمئن نہیں تھے اور وہ کسی مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے چنانچہ جب اپوزیشن اکٹھی ہوئی اور اس نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی تو ان کو بھی زبان مل گئی اور انہوں نے بھی موقع غنیمت جانا ہے جیسا کہ جہانگیر ترین اور علیم خان جو کچھ اس وقت کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ذرائع بتا رہے ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی میں 25سے 30لوگ ایسے ہیں جن پر خود عمران خان کو بھی بھروسہ نہیں ہے۔اس لئے عمران خان اور ان کے وزراء کو چاہئے کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے کسی بیرونی سازش کو تلاش کرنے کی بجائے اپنے لوگوں پر نظر رکھے اور ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔ وزیرخزانہ شوکت ترین نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ میلسی کے جلسے میں وزیراعظم نے جو باتیں کی وہ بالکل سچ ہیں لیکن ایسا کہنے کیلئے وہ مقام ٹھیک نہیں تھا۔

مزید پڑھیں:  پاک روس تعلقات