کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری

قومی سلامتی کے مشیر معیدیوسف نے پاکستان میں9مارچ کو میزائل گرنے کی بھارتی
وضاحت کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک غیرذمہ دار ملک کیسے ایٹمی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔بھارت سے ایک سپر سانک میزائل250کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پاکستان میں گرا، یہ کیسا ملک ہے کہ جس کا میزائل چل گیا اور وہ تین دن بعد وضاحت کر رہا ہے۔ ہم دنیا کو بار بار بھارت کے ناقص دفاعی نظام کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں، ایسا غیرذمہ دار ملک حساس ایٹمی صلاحیت کیسے رکھ سکتا ہے۔مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ بھارت میں ماضی قریب میں یورینیم کی چوری اور شہریوں کو یورینیم اسمگل کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔پاکستان کی جانب سے اس واقعہ کی نشاندہی کئے جانے کے اگلے روز بھارتی حکومت اور وزارت دفاع کی جانب سے اپنی غلطی تسلیم کر لی گئی ہے اور بھارت وزارت دفاع نے اس سلسلے میں جو وضاحت جاری کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ نو مارچ کو معمول کی دیکھ بھال میں حادثاتی طور پر میزائل فائر ہوا’ اس سنگین غلطی کا سخت نوٹس لیا گیا ہے اور اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے، بھارتی حکومت کی وضاحت میں مزید کہا گیا ہے کہ معلومات ملی ہیں کہ میزائل پاکستانی حدود میں گرا’ اس واقعہ پر گہرا افسوس ہے اور اطمینان ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس سارے واقعہ کی تفصیلات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ واقعہ کی بے پناہ سنگینی کے باوجود بھارتی حکومت اور وزارت دفاع کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے’ بین الاقوامی اخلاقیات اور سفارتی اصولوں کے مطابق بھارت کو اس غلطی پر اگر یہ واقعی غلطی تھی’ فوری طور پر پاکستان سے خود رابطہ کر کے اپنی وزارت دفاع کے کارندوں کی اس غلطی کی اطلاع دینا چاہئے تھی اور باقاعدہ معذرت کرنا بھی لازم تھا مگر پاکستان کی جانب سے نشاندہی کے اگلے روز اور وقوعہ کے دو روز بعد جو وضاحت بھارت کی طرف سے جاری کی گئی ہے حیران کن طور پر غلطی کے اعتراف کے باوجود کوئی حرف معذرت پوری وضاحت میں کہیں موجود نہیں ہے حالانکہ اس سنگین سرحدی خلاف ورزی پر پاکستان غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ نہ کرتا اور اپنی بین الاقوامی سرحدوں اور فضائی حدود کے دفاع کے مسلمہ حق کو استعمال کرتے ہوئے اس غلطی پر جارحانہ رد عمل کا مظاہرہ کیا جاتا اور کوئی جوائی کاروائی عمل میں لائی جاتی تو جوہری طاقتوں کے درمیان تصادم ناممکن نہ تھا۔
وکلاء کی ہڑتال اور موکلین کی حق تلفی
معاشرے کے دیگر طبقات اورپیشے سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح وکلاء کو بھی احتجاج اور ہڑتال کا حق حاصل ہے عدالتوں کا بائیکاٹ بھی ان کی مرضی ہے لیکن ان کی جانب سے ہڑتال کا ایک پہلوپیشہ ورانہ دیانت سے متعلق یہ ہے کہ ان کی ہڑتال کی وجہ سے ان کے وہ موکلین ہی متاثر ہوتے ہیں جن کے مقدمات لڑنے کے لئے وکلاء حضرات نے باقاعدہ فیس لی ہوتی ہے اپنا وقت اور پیشہ ورانہ مہارت بالعوض کسی کو فروخت کرنے کے بعد پھر ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر اپنے موکل کامقدمہ لڑنے سے احتراز اور مقررہ تاریخ کو پیشی پر حاضر نہ ہوناکس زمرے میں آتا ہے اس کا قانون سے تعلق ررکھنے والی برادری کو خود جائزہ لینا چاہئے کسی ذاتی مجبوری اور جائز وجہ کی بناء پر تو اس کی گنجائش نظر آتی ہے لیکن احتجاج اور ہڑتال کرکے موکلین کو نقصان پہنچانا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے موکلین کی تاریخوں اور مقدمات کو مزید طول دینا کس زمرے میں آتا ہے اس کا بھی خود انہیں جائزہ لینا چاہئے ان عوامل کے پیش نظر وکلاء برادری اگر عدالتوں کا بائیکاٹ اور مقدمات میں پیش نہ ہونے کی بجائے اگرمعاشرے کے دیگرطبقات اور ملازمین کی طرح احتجاج کے دیگر طریقے اختیار کریں تو کیا مناسب نہ ہو گا۔
علمائے کرام سے ایک گزارش
مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا مساجد کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کی روک تھام کا مطالبہ صرف سیاسی مطالبہ نہیںبلکہ مروجہ سیاسی سرگرمیوں کے لئے مساجد کو بطور پلیٹ فارم استعمال کرنا شرعی طور پر بھی شاید درست نہ ہو مسجد میں دنیاوی بات کی ممانعت کی گئی ہے کجا کہ اسے دیگر مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جائے بہتر ہو گا کہ علمائے کرام خود ہی اس ضمن میں ہماری رہنمائی کریں اور اس طرح کی شکایات اور مطالبات کی نوبت نہ آنے دی جائے کہ معاشرے میں خود علمائے کرام کے کردار و عمل پراعتراض کرنے کی نوبت آجائے۔

مزید پڑھیں:  تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے