ابھی خرید لوں دنیا کہاں کی مہنگی ہے

بات دونوں کی سچ ہے مگر بات پھربھی رسوائی کی ہے ‘ سینئر سیاستدان چوہدری شجاعت حسین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ جو حکومتی بیانیہ ہے کہ منحرف ہونے والوں نے کروڑوں روپے لئے ہیں یہ سچ نہیں ہے بلکہ ان کو آنے والے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دینے کے وعدے کئے گئے ہیں ‘ جبکہ ایک اور سینئر سیاستدان اور ماہرین آئین وقانون اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماء چوہدری اعتزاز احسن نے جہاں آئین کے آرٹیکل 163 اے کے اطلاق پر رد عمل دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ محولہ آرٹیکل کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جس نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا ہو ‘ تاہم کوئی رکن اسمبلی ووٹ سے پہلے نا اہل نہیں ہوسکتا ‘ اعتزاز احسن نے کہا کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ‘ کوئی پیسے پر بکے یا ٹکٹ پر یہ سودے بازی ہے ۔ گویا بات تو فروخت ہونے کی ہے اس صورتحال کو آپ ناک پکڑنے کی ان دونوں صورتوں سے تشبیہ دے سکتے ہیں خواہ سیدھے سیدھے سامنے سے ناک پکڑیں یا پھر ہاتھ کو گردن کے پیچھے گھما کر دوسری سمت سے اسے پکڑنے یک کوشش کریں ‘ یعنی بقول سردار اسلم رئیسانی ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے خواہ اصلی ہو یا نقلی ‘ شاید یہی وجہ ہے کہ اب منحرفین کو تڑیاں دینے کے بعد بلکہ ان کے خلاف پارٹی ورکروں کے ذریعے ”ہراساں” کرنے کی کارروائیاں الٹی پڑ جاے اور سنجیدہ فکر حلقوں کی جانب سے اس صورتحال پر شدید تنقید کے ساتھ ساتھ دستیاب محولہ خبروں میں ”ہوش کے ناخن لینے” جیسی خبرداریوں کے سامنے آنے کے بعد اب منتیں ترلے کرنے اور ”بددعائیں”دینے تک نوبت آگئی ہے کہ واپس آجائو’ تمہیں معاف کر دیا جائے گا ‘ نہیں آئو گے تو تمہارے بچوں کے ساتھ کوئی شادی نہیں کرے گا ‘ اور تمہارا گھر سے نکلنا ‘ تقریبات میں جانا مشکل ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ ‘ اس پرایک بہت پرانا شعر یاد آگیا ہے کہ منتیں ترلے کرنے میں ناکامی کے بعدکوئی دل جلا عاشق اپنی محبوبہ کو کوستا ہو کہ
دعائے بد نہیں دیتا تو لیکن اتنا کہتا ہوں
کہ جس پر تیرادل آئے وہ آگے بے وفا نکلے
موجودہ صورتحال پر جوبیانیہ اختیار کرکے منحرفین کو ضمیر فروش قرار دیا جارہا ہے اس کا جواب بھی سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پریوں سامنے آرہا ہے بلکہ اس حوالے سے وزیر اعظم کے ماضی میں خود اپنے بیانات وائرل ہو رہے ہیں جن میں انہوں نے اپنے ساتھ آکر ملنے والوں کو ضمیر فروش کہنے کی بجائے دوسری جماعتوں کے ”وکٹ گرنے” سے تعبیر کیا ہے ‘ اور سوال اٹھ رہے ہیں کہ اگر تب یہ ضمیر فروشی نہیں تھی تو اب کیسے ہوگئی ‘ اس سارے گیم میں آئین کے آرٹیکل6 کا تذکرہ بھی کیا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی کے کردار پر انگشت نمائی کی جارہی ہے کہ وہ سپیکر کے منصب کے تقاضوں کے برعکس ‘ یعنی غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کی بجائے حکومتی پارٹی کی جانب جھکائو کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود پر آرٹیکل چھ لگوانے کا ارتکاب کر رہے ہیں ‘ وہ تحریک عدم اعتماد کے روکنے میں نہ صرف مبینہ طور پر حکومت کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں ‘ سرکاری اجلاسوں میں شرکت کرکے غیر جانبداری کے تقاضے پور ے نہیں کر رہے بلکہ آئین کے تقاضوں کے مطابق اجلاس کے انعقاد(بروقت) کی راہ میں مزاحم ہو رہے ہیں ‘ اس پر اپوزیشن جماعتوں نے عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے ‘ جبکہ سپریم کورٹ بار نے بھی مبینہ حکومتی ہتھکنڈوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا ہے اور جب یہ سطور تحریرکی جارہی ہیں یعنی پیر کے روز اس حوالے سے حکومتی اور بار ایسوسی ایشن کی درخواستوں پرعدالت میں ”قانونی پیچ” پڑ چکا ہو گا اور ممکن ہے کوئی نتیجہ بھی سامنے آچکا ہو گا اس ساری صورتحال پر اردو کے دو نامور شعراء کے اشعار ملاحظہ کیجئے ‘ مرحوم اقبال عظیم کا کہنا ہے کہ
اب ہم بھی سوچتے ہیں کہ بازار گرم ہے
اپنا ضمیر بیچ کے دنیا خرید لیں
سید ضمیرجعفری مرحوم موجودہ صورتحال کے تقاضوں کے عین مطابق یوں رقمطراز ہیں
ابھی خرید لوں ‘ دنیا کہاں کی مہنگی ہے
مگر ضمیر کا سودا ؟ براسا لگتا ہے
درایں حالات کم از کم ایک جرأت مندانہ آوازبھی سامنے آئی ہے او روہ ہے وزیر خزانہ جناب شوکت ترین کی ‘ انہوں نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے کہا ہے کہ میں لوٹا نہیں ہوں ‘ پی ٹی آئی کا سینیٹر منتخب ہوا ہوں ‘ اسی لئے کسی دوسری حکومت میں بالکل نہیں رہوں گا ‘ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ غیریقینی کی صورتحال پر لمحہ بہ لمحہ نظر رکھے ہوئے ہوں ‘ غیریقینی کی صورتحال زیادہ عرصہ نہیں چلے گی ‘ پی ٹی آئی کا سینیٹرمنتخب ہوا ہوں ‘ میں لوٹانہیں ہوں ‘ نئی حکومت کے ساتھ بالکل کام نہیں کروں گا ۔ اس پر اگرچہ یہ تبصرہ بھی کیاجا سکتا ہے کہ تری آواز مکے اور مدینے ‘ ویسے بھی موصوف ”ریاست مدینہ” کے ایک ”ریپلیکا (Replica) کے وزیرخزانہ ہیں ‘ اور وہ کیسے منتخب کرائے گئے ‘ اس پر ”دامن کو ذرا دیکھ ‘ ذرا بند قبا دیکھ” کہنے میں بھی کوئی تامل نہیں کیا جا سکتا ‘ مگر موصوف سے اتنا تو پوچھنے کا تو حق بنتا ہے کہ حضور اگر بقول آپ کے موجودہ صورتحال زیادہ دیر نہیں چلے گی اور آپ لوٹا نہیں ہیں کہ دوسری حکومت کے ساتھ کام کریںگے ‘ گویا آپ کوبھی محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت ”برقرار” نہیں رہے گی ‘ پھر ایسی صورت میں خود آپ کی وزارت کہاں بچ سکتی ہے ؟ ویسے بھی اگرموجودہ حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں(اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو) گرجاتی ہے تو جو خبریں سیاسی ”مارکیٹ” میں موجود ہیں ان کے مطابق اگلے ممکنہ وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے ‘ اور اگرفرض کریں ایسا ہوجاتا ہے تو پھر نون لیگ کے پاس تو ہندکو زباں کے ایک روز مرہ کے ”تتا تیار” یعنی پہلے سے موجود سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار موجود ہے اور حالیہ ہفتوں میں ایسی خبریں بھی بہت تواتر کے ساتھ آرہی ہیں تھیں کہ آنے والے بجٹ کی تیاری کے لئے مبینہ وطور پر ان کی خدمات بھی حاصل کی جا چکی ہیں ‘ ان خبروں میں کہاں تک صداقت ہے اس حوالے سے حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘ مگر شوکت ترین صاحب کو فکرمند ہونے کی ضرورت بہرحال نہیں ہے ۔ کہ بقول شاعر
اک گزارش ہے حضرت ناصح
آپ اب اورکوئی کام کریں

مزید پڑھیں:  بجلی کے نئے منصوبے اور آئی ایم ایف کا دباؤ