تصادم کی نوبت نہ آنے دی جائے

وزیر اعظم عمران خان نے قوم کے نام اپنے مختصر پیغام میں کہا ہے کہ گزشتہ 30سال سے ڈاکوئوں کا ایک ٹولہ ملک میں کرپشن کر رہا ہے اور ملک کو لوٹ رہا ہے اس نے اکٹھے ہوکر پارلیمانی نمائندوں کی ضمیر کی قیمتیں لگائی ہیں۔انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ لوگ عوامی نمائندوں کو کھلے عام خرید رہے ہیں’ میں چاہتا ہوں کہ 27 مارچ کو پوری قوم میرے ساتھ نکلے اور بتائے کہ ہم اس ملک میں جمہوریت کے خلاف ‘عوام کے خلاف اور قوم کے خلاف ہونے والے جرم کی مخالفت کرتے ہیں۔دریں اثنا اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)نے 28مارچ کو وفاقی دارالحکومت کے علاقے کشمیر ہائی وے پر جلسے کا اعلان کیا ہے جبکہ لاہور سے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مارچ کی قیادت مریم نواز اور حمزہ شہباز کریں گے۔پی ڈی ایم کے ترجمان کے مطابق یہ مارچ مہنگائی ‘لاقانونیت’ ایک غیر جمہوری مسلط شدہ حکومت کے خلاف 27مارچ کو جی نائن سری نگر ہائی وے میں اجتماع ہوگا اور ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن)اور سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں بی این پی’ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن اور جمعیت علمائے پاکستان کے کارکن اور دیگر جماعتوں کے قافلے سری نگر ہائی وے میں جمع ہوں گے جہاں مشترکہ اجتماع ہو گا ۔ کارکن27 اور28کو بھی وہاں رہیں گے، اس کے بعد اپوزیشن قیادت اگلا لائحہ عمل دے گی۔وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد کا سنسنی خیز مرحلہ ایوان کے اندر نمٹانے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر بھی فیصلہ کرنے کی تیاری عروج پر پہنچ چکی ہے جس کے باعث سیاسی مدوجزر کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی جوش و خروش اور تیاریوں میں تیزی آگئی ہے پرامن طور پر یہ سارا عمل اختتام کو پہنچے تو اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگرایوان کے اندر کے فیصلے کو سڑکوں پر چیلنج کرنے کی جو تیاری نظر آرہی ہے اس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا یقینی خطرہ ہے جس سے بچنا حزب اختلاف کی جماعتوں اور حکومتی جماعت دونوں کی ذمہ داری ہے ۔عدالت سے احکامات نہ آتے تو اراکین اسمبلی کو بہ سہولت اجلاس میں شرکت اور واپسی میں بھی مشکلات اور عدم تحفظ کا احساس یقینی تھا ۔ اسلام آباد میں اجتماعات کے انعقاد کی ممانعت سے انکار کے ساتھ ساتھ عدالت کی جانب سے وزیر داخلہ اور انتظامیہ کو امن امان بحال رکھنے کا ذمہ دارقرار دیا ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اس وقت تک تقریباً آٹھ سے دس ہزار ایف سی اہلکار اور رینجرزموجود ہیں۔ ضرورت پڑنے پر مزید نفری طلب کی جا سکتی ہے ایسے میں وزارت داخلہ کی جانب سے جہاں امن وامان بحال رکھنے کے کافی انتظامات کئے گئے ہیںوہاں وزیر اعظم کی جانب سے کارکنوں کو اسلام آباد میں بڑے اجتماع کی دعوت اور ساتھ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے سڑکوں پر طاقت کے مظاہرے اور ممکنہ طور پر دیگر تیاریوں سے اسلام آباد میں کشیدگی کا امکان بہرحال موجود ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت عدم اعتماد کے ناکام بنانے اور حزب اختلاف تمام تر تیاریوں اور دعوئوں کے باوجود تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے حوالے سے پریقین نہیںاس طرح کی تیاریوں سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے ذہنوں کے کسی گوشے میں عدم اعتماد اور مداخلت کے موہوم خدشات موجود ہیںجبکہ وزیر اعظم کی تیاریوں سے بھی یہ بات عیاں نظر آتی ہے کہ تمام تر دعوئوں کے باوجود وزیر اعظم شاید اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام نہ بنا سکیں اور حکومت سے رخصتی کی صورت میں وہ اسلام آباد میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرکے ایوان کے اندر کی ممکنہ شکست کا جواب دینا چاہتے ہیںدیکھا جائے تو دونوں جانب سے خدشات اور بد اعتمادی کی فضا موجود ہے جس کا وہ عوامی دبائو کے ذریعے مقابلہ اور ازالہ کرنے کی سعی میں ہیں سیاسی طور پرفریقین کے حکمت عملی کی جو بھی مصلحت ہو نیز قانون کے مطابق بھی اجتماعات کا انعقاد ان کا حق ہے لیکن اس موقع پر اس طرح کے اجتماعات کی اصولی طور پر ضرورت اور افادیت پر سوالات اٹھنا فطری امر ہے بہتر یہی ہوتا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی دونوںایوان کے اندر بغیر کسی دبائو کے آزادانہ طور پر مقابلے کے ذریعے طے ہوتا اور وفاقی دارالحکومت کی سڑکوں پر عوامی اجتماعات کے ذریعے دبائو ڈالنے یا خود کو تسلی دینے کے لئے ایسا کرنے سے اجتناب برتا جاتا۔قافلے چل پڑے ہیں اور اسلام آباد میں مقررہ مقامات پر اجتماعات کا انعقاد اور طاقت کا بھر پور مظاہرہ ہونے جارہا ہے ایسے میں سوائے اس کے کوئی اور تجویز نہیں دی جا سکتی کہ جتنا ممکن ہو سکے قائدین اپنے حامیوں کو پرامن رہنے کی تلقین کریں اور تحریک عدم اعتماد کے نتائج پر جذباتی رد عمل کا اظہار کسی صورت نہ کیا جائے ۔اسلام آباد میں کوئی ایسی کشیدگی کا ماحول پیدا نہ کیا جائے جس سے امن وامان کو نقصان پہنچے اور جمہوریت بدنام ہو ۔ جمہوری عمل کو جمہوری طریقے سے نتیجہ خیز بنایا جائے اور شکست و فتح دونوں کو جمہوری طریقے سے برداشت کیا جائے ۔یہی جمہوریت کی روح ‘ قانون کا تقاضا اور دستور رہا ہے جس پر کاربند رہنا جملہ فریقوں کی ذمہ داری ہے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ ہماری جملہ سیاسی قیادت کو اس کا احساس ہو گا اور وہ جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کریں گے۔بہتر ہو گا کہ مہم جوئی سے گریز کیا جائے اور جوابی ردعمل کی نوبت نہ آنے دی جائے ۔

مزید پڑھیں:  تیس برس میں مکمل نہ ہونے والی سڑک