دستوری تقاضوں کا خیال رکھنے کی ضرورت

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی جانب سے استعفیٰ سمیت تین آپشنز کی پیشکش کی گئی ہے تاہم قبل از وقت انتخابات بہتر آپشن ہے۔اپوزیشن پرالزامات عائد کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جب یہ کسی کے پیچھے پڑتے ہیں تو ان کے مختلف طریقے ہوتے ہیں، میں ابھی سے بتا رہا ہوں کہ یہ مل کردار کشی کریں گے، جس کو انہوں نے گرانا ہو اس کے خلاف ہرقسم کی مہم چلاتے ہیں۔قبل از انتخابات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے جو لوگ گئے ہیں ظاہر اب ان کے ساتھ حکومت نہیں چلاسکتے ۔انہوں نے کہا کہ ‘اگر ہم یہ ووٹ جیت جاتے ہیں تو قبل از انتخابات میں جانے کی تجویز بڑی اچھی ہے اور اس حوالے سے اپنی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔اگرچہ ملکی سیاست میں مداخلت سے اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہونے کا عندیہ دے کر عملی طور پر اس پر عمل پیرا بھی ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجوداسٹیبلشمنٹ کا رول یا تو کسی نہ کسی حد تک براہ راست یا بالواسطہ موجود ہے یا پھر اس حد تک یہ امر ناگزیر ہے کہ ایک دوسرے سے رابطے سے گریزاں سیاستدانوں کے درمیان تصادم رکوانے اور ملکی معاملات کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے کے حوالے سے سیاسی امور میں کردار کا فریضہ نہ رکھنے کے باوجود بھی ایک مرتبہ پھرعظیم تر قومی مفاد میں فریقین کے درمیان کم از کم پیغام رسانی کا کردار ادا کیا جائے دیکھا جائے تو اس کردار کے ادائیگی پر خود سیاستدانوں ہی کی جانب سے موقع دیاگیا ہے یا پھرمجبورہونا پڑا ہے یہ بات اپنی جگہ نوشتہ دیوار ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ معاملات طے کرتی رہے گی پھر وزیر اعظم کوئی بھی ہو حکومت وہی رہے یا تبدیل ہوکوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے تو اسی صورت میں اسمبلیاں تحلیل کی جا سکتی ہیں ۔ ذرائع کے مطابق عسکری قیادت جب یہ تجویز لے کر حزب اختلاف کے پاس گئی تو اپوزیشن نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا ایسے میں وزیر اعظم عمران خان کے پاس آخری بال تک مقابلہ کرنے کا راستہ ہی بچتا ہے اس امر کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریک ا نصاف شاید اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر عام انتخابات کی راہ ہموار کرے تحریک انصاف کی جانب سے ماضی میں یہ حربہ نیم دلی سے آزمایا جا چکا ہے تاہم اس میں کچھ کردار اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی کا تھا اور زیادہ کردار استعفوں کی سپیکر کے سامنے تصدیق سے گریزاں تحریک انصاف بھی ذمہ دار ٹھہرتی ہے لیکن اس مرتبہ چونکہ سپیکر کا تعلق حکمران جماعت سے ہے ایسے میں تحریک انصاف کی جا نب سے مستعفی ہونے کی صورت میںان کو یہ سہولت حاصل نہیں رہے گی کہ وہ مستعفی بھی ہوں اور ان کے استعفے منظور نہ کئے جائیں اور وہ مراعات بھی سمیٹیںمحولہ تمام عوامل کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یا تو تحریک انصاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں اور ان کی ممکنہ کامیابی کا بروقت صحیح اندازہ نہ لگا سکی اور ممکنہ طور پر انہیں کچھ سرپرستوں کی مدد کی بھی شاید توقع تھی جس کی بناء پر تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع ہونے سے قبل اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ نہ کیا جا سکا یا پھر تحریک ا نصاف اب بھی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ان کے متعدد اراکین پہلے ہی سے اعلانیہ طور پر حزب اختلاف سے مل چکے ہیں جبکہ استعفوں کے اعلان کی صورت میں ممکنہ طور پر ان کی تعداد میں اضافہ بھی ناممکن نہیں ایسے میں استعفوں کے امکانات محدود رہ جاتے ہیں ان تمام عوامل کی موجودگی میں اگرچہ کسی انہونی کی صورت ہی میں تحریک انصاف گیم میں واپس آسکتی ہے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آخری بال پر بھی آخر ی وقت پر فیصلہ آنے کے امکانات معدوم نہیں سمجھے جاتے اس ساری صورتحال میں سپیکر کا کردار اہم ہے لیکن قانون اور آئین کی خود ساختہ تشریح اور کوئی ایسا قدم جو تضادات اور تنازعات کو جنم دے اس سے گریز اور ایوان کو دستور کے مطابق چلانا سپیکر کی ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کی گنجائش نہیں بہرحال جاری صورتحال میں جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیابصورت رخصتی اقتدار پاکستان تحریک ا نصاف کے کارکنوں کی جانب سے احتجاج کوئی غیر سیاسی ‘ غیر جمہوری اور غیر قانونی طریقہ نہ ہو گاالبتہ قانون شکنی کا ارتکاب کسی کے مفاد میں بھی نہ ہو گا۔سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھی کوئی ایسی غیر دستوری کردار و عمل کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے اور ایک سیاسی و جمہوری عمل کو دستور کے مطابق مکمل کرنے کی ذمہ داری نبھانا ہو گی تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے اور ملک آئینی بحران کا شکار نہ ہو جہاں تک وزیر اعظم کی جانب سے کردار کشی کے خدشات کا اظہار شامل ہے ایسا ناممکن نہیں اس حوالے سے جو بوئوں گے وہی کاٹو گے’ گندم از گندم جو از جو کا محاورہ بہتر تشریح نظر آتی ہے البتہ اگر حزب اختلاف کی جماعتیں کامیابی کی صورت میں اس طرح کے فضول اور لغوامور میں ملوث نہ ہونے کا فیصلہ کریںتو یہ اعلیٰ ظرفی ہو گی اسی طرح انتقام کے جن جذبات کا اظہار کیا جارہا ہے وہ بھی جمہوری سیاست اور قانون کے حوالے سے مناسب نہیںوزیر اعظم عمران خان اپنے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اس کا بڑی حد تک انحصار خود ان کے کردار و عمل پر ہو گا کہ وہ اپنے لئے آبیل مجھے مار قسم کے اقدام سے کس حد تک احتراز برتتے ہیں۔وطن عزیز کی سیاست اور حکومت میں آنے و محروم اقتدار ہونے کے حوالے سے سیاستدان جب تک اپنے بل بوتے پر فیصلے اور تمام تر اختلافات کے باوجود جب تک غیر سیاسی کرداروں کو پیغام رسانی یا مصالحت کے لئے کردار کی ادائیگی کی زحمت دیتے رہیں گے اور سیاسی معاملات میںمداخلت اور اس پر اثر انداز ہونے کی روک تھام نہیں ہو سکے گی۔

مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!