خارجہ پالیسی پر آرمی چیف کا مؤقف

وزیر اعظم عمران خان 23 فروری کو دو روزہ دورہ پر روس پہنچے تو اس سے اگلے روز یوکرین اور روس کے درمیان جنگ چھڑ گئی، چونکہ روس جارحانہ اقدام اٹھاتے ہوئے یوکرین پر حملہ آور ہوا تھا اس لئے امریکہ اور یورپی یونین نے روس کی مخالفت کی، یورپی یونین اور امریکہ نے روس کے خلاف پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے سخت مؤقف اختیار کیا، روس کی مخالفت کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی تنقید کی گئی کہ یوکرین معاملے پاکستان روس کا ساتھ دے رہا ہے، اسی دوران وزیر اعظم عمران خان اپنے بیانات میں کھل کر امریکہ کی مخالفت کر رہے تھے کہ ہمیں امریکہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے سو عالمی سطح پر دورہ روس کو پاکستان کی خارجہ پالیسی سمجھ لیا گیا۔ اس پر مستزاد جب یورپی یونین نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرار داد پر دستخط کیلئے پاکستان پر زور دیا تو پاکستان میں انیس غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان سے یوکرین کی حمایت کا مطالبہ کیا، پاکستان نے مگر اس معاملے پر نیو ٹرل رہنے کا مؤقف اختیار کیا، یورپی یونین نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کا جھکاؤ روس کی طرف ہے یوں پاکستان اور امریکہ و یورپی یونین کے سفارتی تعلقات میں کسی قدر تناؤ محسوس کیا جا رہا تھا۔ اس لئے امریکہ اور پاکستان کے درمیان بڑھتی سفارتی خلیج کو کم کرنے میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا سکیورٹی ڈائیلاگ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب نہایت اہمیت کا حامل ہے۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان کیمپ پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا، یوکرین میں فوری جنگ بندی کی جائے، چین اور امریکا دونوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، کسی دوسرے ملک سے تعلقات کو متاثر کیے بغیر امریکا کے ساتھ تعلقات کو توسیع دینا چا ہتے ہیں۔
آرمی چیف نے پاک چین تعلقات کے ضمن میں کہا کہ پاکستان کا چین کے ساتھ قریبی اسٹرٹیجک تعلق ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے سے عیاں ہے، اسی طرح ہماری امریکا کے ساتھ بہترین اسٹرٹیجک تعلقات کی طویل تاریخ ہے اور امریکا ہماری سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے مؤقف کے برعکس دو ٹوک انداز میں یوکرین کے خلاف روس کے اقدام کو جارحیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس کے جائز سکیورٹی خدشات کے باوجود خود سے چھوٹے ملک پر اس کی جارحیت کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
بھارتی عزائم کا ذکر کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ تمام دیرپا مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کو مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے حل کیا جائے، مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت اور چین کے درمیان پانی کا تنازع بھی پاکستان کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملہ کو مذاکرات اورسفارتکاری کے ذریعے جلد ازجلد حل کیا جائے۔2001ء کے بعد پاکستان نے 90ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور150ارب ڈالرز سے زائد معاشی نقصان برداشت کیا۔ بے شمار قربانیاں دے کر دہشت گردی پر قابو پایا۔ خطے کی سکیورٹی اور استحکام ہماری پالیسی میں شامل ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بار، بار مطالبہ کیا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں فوری طور پر سیزفائر کیا جائے اور ہم چاہتے ہیں فریقین مسئلہ کا مذاکرات کے ذریعے پائیدار حل نکالیں۔
آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کو اس بات کا احساس ہے کہ ممالک نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خطوں میں امن و استحکام کا قیام مشترک ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے اور اس حوالے سے ہمارے مقاصد اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے لئے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان نے افغان عوام کے لئے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لئے بین الاقوا می برادری کے ساتھ مل کر انتھک طریقہ سے کام کیا ہے تاہم ابھی اور بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ افغانستان کو بروقت انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی جائے۔ پاکستان پہلے ہی 40لاکھ کے قریب رجسٹرڈ اورغیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اورہم اپنے افغان بہن بھائیوں کی میزبانی جاری رکھیں گے تاہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایسا سازگار ماحول پیداکرنا چاہیں گے جس میں یہ مہاجرین بروقت اور باعزت طریقہ سے واپس افغانستان چلے جائیں۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پایا جانے والا ابہام آرمی چیف کے بعد ختم ہو گیا ہے، امید کی جانی چاہئے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں خارجہ پر پالیسی کے معاملے پر سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر کھڑی دکھائی دے گی۔

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت