برطانیہ میں سائکلیں اور پشاور میں موبائل چوری

گزشتہ دنوں پشاور کے پوش علاقہ کے رہائشی ایک دوست سے ملاقات ہوئی وہ انتہائی افسردہ لگ رہا تھا میںنے اس سے پہلے اسے اس طرح نہیں دیکھا تھا لہٰذہ میں بھی بہت پریشان ہوگیا اور میرے بار بار استفسار پر اس نے مجھے اپنے افسردہ ہونے کی وجہ اس شرط پر بتا ہی دی کہ میں کسی سے اس بات کا زکر نہیں کروں گا میں نے بھی اپنے دوست کی پریشانی دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی حامی بھر ہی لی اورویسے بھی ایک صحافی ہونے کے ناطے ہم اپنی معلومات کا ذریعہ حتیٰ المکان کسی پر ظاہر نہیں کرتے’ چاہے اس پر ہمیں کتنی ہی تکالیف کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں ۔ اس دوست نے بتایا کہ صبح دفتر جاتے ہوئے وہ حسب معمول اپنے گھر سے نکلا اور ابھی اپنی گلی سے نکلا ہی تھا کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے اور گن پوائنٹ پر موبائل اور پرس(بٹوا) چھین لیا۔ رقم کے لٹنے کا اور موبائل کے کھونے کا اسے افسوس اتنا نہیں ہوا جتنا کہ پرس میںموجود مختلف کارڈز اور موبائل میں موجود دوستوں کے نمبر اور بہت قیمتی تصاویر تھیں۔ کارڈز میں قومی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، اے ٹی ایم کارڈ اور کچھ دیگر کارڈ تھے اب ایک ایک کارڈ کے لئے ایک تھکا دینے والا مرحلہ طے کرنا پڑے گا اور اسی طرح موبائل فون میں دوستوں اور کاروباری لوگوں کے نمبر کھو جانے سے بہت بڑا نقصان ہوگیا اب یہ سارے نمبر دوبارہ سے جمع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
میرے پرزور اصرار پر اس نے ایک زمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیا اور جا کر تھانہ میں رپٹ لکھوانے کی حامی بھر لی لیکن جب تھانے کے بار بار کے چکر کے باوجود ابتدائی اطلاعی رپورٹ نہ لکھی جانے پر پہلے محرر ، اے ایس آئی اورپھر ایس ایچ اوکے پاس گئے مگر کچھ نہ ہوئے مجبوراً اس نے ڈی ایس پی تک رسائی کی تاہم کوئی شنوائی نہ ہونے پر پھر اس سے بھی اوپر جانا پڑا اور خدا خدا کرکے تین دن کے بعد ایف آئی آر ہوہی گئی۔ ایف آئی آر نہ لکھنے کے پیچھے کون سی باتیں کارفرماہیں اس پر پھر کبھی لکھوں گافی الحال ہم بات جاری رکھتے ہیں موبائل چوری کی، آخری خبریں آنے تک میرے دوست کو ابھی تک کچھ اچھی خبرنہیں ملی اور امید ہے ملے گی بھی نہیں کیونکہ پشاور میں موبائل چوری کی وارداتیں دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ اور یہ کسی ایک گلی ، محلہ یا علاقہ کی بات نہیں کیونکہ جہاں پشاور کے اندرون شہر سے لے کر، صدور اورپھر پوش علاقہ حیات آباد تک ساری جگہ پر یہ موبائیل چورلوگ کھلے عام اپنی کاروائی کررہے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ پکڑے بھی نہیں جارہے۔
مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ میں انٹرنیٹ پر دنیا بھر کے مختلف اخبارات و ٹی وی چینلز کی خاص خاص یا دلچسپ خبریں دیکھ رہا تھا تو میری نظر اس خبر پر پڑی کہ برطانیہ کے شہر آکسفورڈ میں ایک چور پکڑا گیا ہے کہ جس نے پانچ سو سائیکلیں چوری کیں اور جن کی سائیکل چوری ہوتی وہ تھانہ جاکر رپٹ لکھواتااور پاکستان کی طر ح برطانوی شہری کو بھی انتظار کا لالی پوپ دے کر گھر بھیج دیا جاتا اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ کئی بار اس54سالہ برطانوی چور کوبھی نامزد کیا گیا لیکن عدم ثبوت کی بنیاد پر کبھی بھی اس پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا لیکن اس کی قسمت خراب تھی کہ ایک دن سیٹلائیٹ پر دیکھا گیا کہ اس کے گھر کے لان میں بہت زیادہ سائیکلیں پڑی ہیں اور پھر چھاپہ مار کر ساری کی ساری سائیکلیں برآمد کرلی گئیں۔ یہاں یہ بتا تا چلوں کہ برطانیہ میں سائیکل چوری کی یہ واردات پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ برطانیہ میں سائیکل کی چوری عام سی بات ہے اور پھر اس کے شہر آکسفورڈ برطانیہ کا دوسراشہر ہے کہ جہاں سے بہت زیادہ سائیکلیں چوری ہوتی ہیں۔ 2018ء میں اس شہر سے 1816سائیکلیں چوری ہوئیں اور 2019ء میں734سائیکلیں چوری کی گئیں2020اور 2021ء میں چوری کی تعداد میں ذرا کمی اس وجہ سے آئی کہ کرونا کی وجہ سے لوگوں کے آنے جانے پر پابندیا ں تھیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اطلاع بھی اخبار کو پولیس نے ہی فراہم کی ہے پولیس نے عوام کو یہ صلاح بھی دی ہے کہ یہ چوریاں اس وجہ سے ہورہی ہیں کہ ان کی سائیکل کو جو تالہ لگاہوتاہے وہ اچھے معیار کا نہیں ہے لہٰذا عوام اچھے معیار کا تالہ استعمال کریں۔ اور آخری بات پڑھ کر تو ہوسکتے ہیں کہ آپ لوٹ پوٹ ہی جائیں کہ سال بھر کی محنت سے برطانوی پولیس نے صرف اور صرف 22سائیکلیں ہی ڈھونڈ سکیں ان میں سے بھی زیادہ تر سائیکل کے مالکوں نے خود ہی ڈھونڈیں اور پھر پولیس کو بتادیں۔برطانیہ جیسے ملک میں ہونے والی سائیکل چوری کی خبریں دیکھ کر میرے دل کو بہت تسلی ہوئی اور پھر میں نے اپنے دوست کو فون کرکے بتایا کہ آپ ہرگز پریشان نہ ہوں اس طرح کے واقعات برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہورہے ہیں اور وہاں کے عوام بھی خود اپنے گم شدہ سائیکلیں ڈھونڈرہے ہیں لہٰذا تم بھی خود ہی اپنے موبائل کی تلاش شروع کردو۔کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے ا س لئے امید رکھو ایک نہ ایک دن تمہیں بھی اپنا گم شدہ موبائل مل جائے تو پھر ایک اچھے شہری ہونے کے ناطے جاکر پولیس کو اطلاع دے دینا تاکہ وہ آپ کی ایف آئی آر کو بند کرسکیں۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر !!!کم ازکم لیکن آخری نہیں