عید کے چاند میں کچھ روز ابھی باقی ہیں

الحمد للہ چاند نے بھی اس بار مہربانی فرمائی یعنی مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور پشاور کی مسجد قاسم علی خان کی رویت ہلال کمیٹی کے علاوہ صوبے میں موجود مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی تمام رویت ہلال کمیٹیوں کو ایک پیج پر لاکر رویت پر اتفاق کرانے میں کامیابی حاصل کی ‘ بہت مدت بعد ملک بھر میں ایک ہی روز آغاز رمضان سے ماہ رمضان کا لطف دوبالا ہوگیا ہے’ اس لئے اللہ کا شکر بجا لانے میں کسی کو عذر نہیں ہونا چاہئے ‘ تاہم اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ رمضان المبارک کا ایک ہی روز آغاز کرنے والوں کو مہینے کے اختتام پر ایک بار پھر یکجہتی کے اظہار پر مجبور یا آمادہ کیا جا سکے گا ‘ کیونکہ اس سے پہلے یہ جو رویت ہلال کمیٹیاں ہیں ان کا وتیرہ کچھ ایسا ہوا کرتا تھا جیسا کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ایک قطعہ میں بیان کیا ہے کہ
چاند نکلا ہے یا نہیں نکلا
ہر جگہ ایک گفتگو ہے میاں
چاند نکلے تو اس کی مرضی سے
بس یہی ایک آرزو ہے میاں
ویسے تو بز رگوں کے مطابق دنیا امید پر قائم ہے اور امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے لیکن گزشتہ سالوں کے ٹریک ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو اللہ نہ کرے ہماری یہ بدگمانی درست ثابت ہو کہ ہلال عید کے حوالے سے یہ کھمبیوں کی طرح اگی ہوتی رویت ہلال کمیٹیاں ایک بار پھر اسی طرح”ایک پیج” پر ہونے کا مظاہرہ کریں گی ‘ اس کی وجوہات بھی ہیں ‘ خیر یہ توجملہ ہائے معترضہ ہیں ‘ بات ہو رہی تھی رمضان پر یکجہتی کے اظہار کے بعد عید الفطر کے موقع پر ممکنہ طور پر ایک بار پھر اس پیج کی شکست و ریخت کے امکانات کو خارج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ماضی میں اس حوالے سے ایک تکنیکی مسئلے کی وضاحت ہم کئی بار کر چکے ہیں مگر علمائے کرام نے ہماری گزارشات کو کبھی درخور ا عتناء نہیں سمجھا یہ ان کا حق بھی ہے کہ ہم کونسے عالم دین ہیں ‘ ہم تو ایک عام مسلمان ہیں اور علم دین پر ہمیں نہ کوئی دعویٰ ہے نہ دسترس جس کے بل بوتے پر کوئی دعویٰ کرسکیں ‘ تاہم ایک اصولی بات کرنے سے خود کو روک بھی نہیں سکتے اور وہ یہ کہ سن عیسوی کے تحت سال کے 365 دن ہوتے ہیں جن میں مہینوں کے اندر دنوں کی تعداد عموماً 30اور 31 ہوتی ہے ‘ ماسوائے فروری کے جس کے28 دن ہوتے ہیں البتہ لیپ کا سال فروری میں ایک دن کا اضافہ کر دیتا ہے اور اس حوالے سے ہم اپنے سکول کے دنوں میں مہینوں کے دنوں کی تعداددو طریقوں سے کیا کرتے تھے ‘ ایک تو دونوں ہاتھوں کو الٹ کر کے دیکھا جائے تو انگلیوں ااور ہتھیلی کے جوڑوں میں نشیب و فراز یعنی جہاں ہڈی ابھری ہوئی ہو اسے 31اور جہاں دو انگلیوں کے درمیان نشیب نظر آئے اسے30 گنتے تھے ‘ اسی طرح ایک چھوٹی سی نظم سے بھی یہ تفریق نمایاں کرتے تھے یعنی
30دن ستمبر کے ‘ اپریل جون نومبر کے
فروری کے28 دن ‘ باقی سب کے ایک اور تیس
فروری جب لیپ کا آئے
28پر ایک بڑھائے
یہ تو خیر شمسی کیلنڈر کی بات ہے کیونکہ دنیا میں اہل مغرب کی تقلید میں سارا نظام اسی پر چلتا ہے البتہ اسلامی کیلنڈر قمری مہینوں کی بنیاد پر چلتا ہے اور اس میں شمسی کیلنڈر کی طرح 365دن نہیں بلکہ 355 دن ہوے ہیں ‘ جن کی تقسیم کا سسٹم کچھ یوں ہے کہ ایک مہینہ 30 اور اگلا مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے تاہم ایسا ہے کہ تواتر کے ساتھ دو مہینے تیس تیس دن کے توآسکتے ہیں جبکہ 29 دن کے دو مہینے یکے بعد دیگر ے نہیں آسکتے ‘ یوں سات مہینے 30 دن اور پانچ مہینے 29دن کے ہوتے ہیں ‘ اور ان کا ٹوٹل 355 بن جاتا ہے اب چونکہ موجودہ یعنی شعبان کا مہینہ 29دن کا تھا اس لئے کیلنڈر کے مطابق (اصولی طور پر )رمضان کا مہینہ 30دن کا ہونا چاہئے ‘ یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ سالوں میں متعدد بار اس اصول کی نفی ہوتی ہم نے دیکھی یعنی شعبان بھی 29دن اور رمضان بھی 29 دن کا ‘(اس کے برعکس مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے رمضان 30 دن کا قرار دے کر عید الفطر کا اعلان کیا ‘ اسی طرح مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے شعبان بھی 30 اور رمضان بھی 30 کا قرار دے کر عید منانے کا اعلان کیا ‘ حالانکہ اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا کی نجی کمیٹیوں نے شعبان کے تیس دن کے بعد رمضان کے 29 کے بعد جب عید کا اعلان کیا تو اگلے ہی روز ہلال عید کی کیفیت (سائز اور دیر تک افق پر چمکتے رہنے) نے صوبائی کمیٹیوں کا دعویٰ درست ثابت کیا ‘ مگر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین کو یہ توفیق نہ ہو سکی کہ وہ اپنی غلطی کا ا عتراف کرکے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ‘ اس حوالے سے گزشتہ دو تین برسوں کے دوران خود پنجاب کے بعض علمائے کرام نے بھی سابق چیئرمین کی مبینہ ہٹ دھرمی پر سوال اٹھا کر خیبر پختونخوا کے علمائے دین کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کیا ‘ مگر سابقہ چیئرمین نے اپنے مبینہ غلط فیصلوں سے رجوع کرنے کی ضرورت کا احساس نہیں کیا ‘ اب جب سے موصوف کو مسلسل تقریباً اٹھارہ بیس برس کے بعد رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی سے ہٹایا گیا ہے صورتحال میں بہت حد تک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے ‘ اب کی بار بھی رمضان کا چاند دیکھنے کے لئے نہ صرف مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میںمنعقد کیا گیا بلکہ کمیٹی کے چیئرمین عبدالخبیر آزاد صاحب نے مسجد قاسم علی خان رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو دعوت ‘ ہم نے31مارچ کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں مختصراً اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے استدعا کی تھی کہ وہ اگر خود نہ جائیں تو کم از کم اپنا کوئی نمائندہ ضرور بھیج دیں مگروہی بات کہ چہ پدی چہ پدی کا شوربا یعنی ہم کیا ہماری حیثیت کیا ‘ ہماری بات کو درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا ‘ بہرحال دیکھتے ہیں کہ شوال کاچاند دیکھنے کے حوالے سے کیا صورتحال بنتی ہے اور اسلامی کیلنڈر کے اصول کو اپنایا جاتا ہے یا پھر شعبان کے 29دن کے بعد رمضان کی29کو بھی چاند (ممکنہ طور پر ) نظر آنے کے بعد متفقہ طور پر سوال کے آغاز کی نوید دی جاتی ہے یا پھر ایک بار پھر صورتحال اختلافات کی نذر ہوجاتی ہے ۔ بقول وکیل انجم رانا
عید کے چاند میں کچھ روز ابھی باقی ہیں
اپنے چہرے سے دوپٹہ نہ سرکنے دینا

مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!