پاک بھارت بہتر تعلقات وقت کا تقاضا

پالیسی کو دراصل مختلف علمی اور سیاسی حلقوں میں نئے نقطہ نظر کے طور پر سمجھا جاتا ہے جس کا مقصد پاکستان کے قومی سلامتی کے لائحہ عمل کے تصور میں شامل روایتی سوچ کے عمل کی تجدید ہے، پاکستا ن کی نئی قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی محورشہریوں کا تحفظ، معیشت کی مضبوطی، بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا فروغ اور غیر روایتی خطروں سے نمٹنا ہے، ماضی کے سلامتی پالیسی لائحہ عمل کے برعکس نئی قومی سلامتی پالیسی میں توجہ جیوسٹرٹیجک سے جغرافیائی معیشت کی طرف منتقل کی گئی ہے، تاہم پالیسی کے مسودے کے اس خاس عنصر نے نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا کس طرح ازسرنو جائزہ لے گا؟ماضی قریب اس بات کا شاہد ہے کہ بھارت خطے میں اپنے دونوں حریفوں پاکستا ن اور چین سے نمٹنے کے لئے اپنی صلاحتیں بڑھا رہا ہے لیکن اس کے باوجود قومی سلامتی پالیسی میں بھارت کے ساتھ خوشگوا ر تعلقات کا فروغ کے حوالے سے پاکستان کے عزم کا اجاگر کیا گیا ہے، دیکھاجائے تو تصوراتی روایتی خطرات کے مقابلے میں دونوں ہمسایہ ملکوںکو اس وقت درپیش غیرروایتی خطرات کی نوعیت زیادہ سنگین ہے جن میں موسمیاتی تبدیلی، آبی قلت، غذائی بحران اور کورونا وائرس کی وباء کے منفی اثرات شامل ہیں،چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کو بھی ان غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
دونوں ممالک اس وقت غیر روایتی سکیورٹی خطرات کی زد میں ہیں،خشک سالی اور مون سون کے دوران آنے والے سیلابوں سے کم پیداوار اور انسانی تحفظ کے حوالے سے چیلنجزدرپیش ہیں، چنانچہ پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ وہ وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلی جیسے غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے پیش بندی کریں ، اس وقت 600ملین سے زائد بھارتیوں کوخشک سالی کا سامنا ہے اور بھارت میںزیرزمین پانی کی سطح بھی تیزی سے کم ہورہی ہے، بھارت دنیا میں زیرزمین پانی استعمال کرنے والا سب سے بڑاملک ہے اور خدشہ ہے کہ 2030ء تک 40فیصد سے زائد بھارتیوں کو پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہوگی، سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ہر سال دولاکھ سے زائد بھارتیوں کی موت مضرصحت پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہے، ادھر کوپاکستان کو 2025ء شدید آبی قلت کا مسئلہ درپیش آسکتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ساتواں انتہائی غیرمحفوظ ملک ہوگا،دونوں ملکوں کو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی تباہی کے چیلنجز درپیش ہیں چنانچہ اس ضمن میں ماحولیاتی سفارت کاری شروع کرنے کی ضرورت ہے،سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور دوبارہ یہ معاہدہ اس اندازمیں طے کیا جائے کہ موسمیاتی تبدیلی اوردریائے سندھ پر آلودگی کے مسائل بھی اس میں شامل ہوں،اسی تناظرمیں پاکستان نے قومی سلامتی پالیسی کے ذریعے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ضرورت محسوس کی ہے،اجتماعی کوششوں اور،چین جاپان ماحولیاتی تعاون کی طرز پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے معاہدوں کی ضرورت ہے تاکہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کا لائحہ عمل وضع کیا جا سکے۔دونوں ممالک جنگلات کی بحالی اور ایندھن کے غیر موثر ذرائع کو ترک کرکے ماحول دوست معیشت پرمنتقلی کے معاملات پر تعاون کرسکتے ہیں، اسی طرح دونوں ممالک داخلی سطح پر متبادل مؤثر توانائی کے ذرائع کے قیام کے لئے بھی مل کرکام کرسکتے ہیں،عالمی بینک کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم دوارب ڈالر سے 37ارب ڈالرتک بڑھانے کی گنجائش موجود ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب دونوں ممالک ٹیرف اور حساس لسٹ، سخت ویزہ پالیسی ،سخت معیارات اور سرحد پر جانچ پڑتال کے طویل عمل جیسی نان ٹیر ف رکاوٹوں کو دورکرنے کے لئے اقدامات کریں۔
امریکی ماہر سیاسیات اسٹیفن کوہن نے اپنی ایک تصنیف میں لکھا کہ بھارت پاکستان کی معمہ نے پاک بھارت تعلقات کی مایوس کن تصویر کھینچی ہے،انہوںنے دونوںملکوں کے درمیان مخاصمت کو دنیاکے ان تنازعات کاپانچ فیصد قراردیا جو حل نہیں کئے جاسکتے۔انہوں نے یہ بھی لکھاکہ یہ خطہ دنیا کے سب سے کم اقتصادی طور پر مربوط خطوں میں شامل ہے،امیدکرتے ہیں کہ قومی سلامی پالیسی کوہن کی اس مایوسی کوپرامیدی میںبدل دے گی، پاکستان کی طرف سے 2019ء میں کرتارپورراہداری کھولنا اس سمت میں ایک مثبت قدم ہے، اگر چین پاکستان اقتصادی راہداری اورکرتارپور جیسی راہداریاں ممکن ہیںتو پھرکیوں نہ پاکستان اور بھارت مخاصمت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقتصادی راہداری کا آغاز کریں، تعمیر پسندوں کی لغت میں روایتی تحفظ انسانی ساختہ اور تصوراتی ہے جسے دوستی میں بدلا جا سکتا ہے چنانچہ دونوں ممالک دوستی کے نئے باب کا آغازکریں،دشمنیوں نے ہمیں جنگیں ،تباہی،نفرت،غربت دی اور ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی کے دورمیں پیچھے چھوڑ دیاہے۔(بشکریہ ، بلوچستان ٹائمز،ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت