سب حفاظت کررہے ہیں مستقل دیوار کی

اس وقت جو بحرانی کفیت پائی جا رہی ہے وہ گزشتہ پچھتر سالوں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ اب تو آئینی سوالات بھی اٹھ کھڑے کردئیے گئے ہیں ، عوام کومستقبل کے بارے میں کوئی گما ن سا گما ن ہو کر رہ گیا ہے ۔ گو اس وقت سیا ست دانو ں کی نظریں عدلیہ کی طرف مرکو ز ہو کررہ گئی ہیں تاہم پی ٹی آئی کے اکابرین اپنے طورپر قدم آگے بڑھا ئے جا رہے ہیں ۔ ان کو یہ فکر قطعی لا حق نہیں ہے کہ ابھی معاملہ عدالت میں زیر سما عت ہے ۔ ان کو بس ایک ہی دھن ہے کہ انتخاب ہوجائیں چنا نچہ صدر مملکت کے خط کے جو اب میں پی ٹی آئی نے سابق چیف جسٹس سپریم کو رٹ جسٹس گلزار احمد کا نا م تجویز کر دیا ہے ۔ اس وقت جائزہ لیا جائے تو سیا ست اب ایک آئینی جدوجہد یا جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ اپوزیشن ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے لے اسمبلی توڑنا ، اور اس کے بعد کے اقداما ت کو غیر آئینی قرار دے رہی ہے ۔ڈپٹی اسپیکر نے وزیر قانو ن اب تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ سابق وزیر قانو ن کہا جا ئے یا نہیں فواد چودھر ی کے ایک نکتہ اعتراض کو درست قرار دیتے ہوئے تحریک عدم اعتما د کو مستر د کر دیا یو ں اپوزیشن کا سارا کھیل مٹی کر دیا ۔لیکن اب اپوزیشن کی طرف سے قومی سلا متی کونسل کے ارکا ن سے استفسار کر رہی ہے کہ عمر ان خان نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ کونسل کے اجلا س میں عسکری قیادت نے ان سے اتفاق کیا ہے ، کیا یہ بات درست ہے کیوں کہ پا کستان کے سابق سفیر کی طر ف سے بھیجے جا نے والے خط کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تحریک عدم اعتما د اپوزیشن نے امریکی سازش کی بنیا د پر دائر کی ہے گویا وہ امریکی سازش کا حصہ ہے اگر ایسا ہے تو ایو ان کے ایک سو ستانوے ارکا ن کیا غدار ہیں ۔جو حکومت نے امریکی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے ان کے حوالے اپنے مئو قف پر مشتمل مراسلہ دیدیا ۔بہر حال عمر ان خان اور کی پارٹی کے دیگر اکا برین جیسا کہ سازش کا ادعا کر رہے ہیں تو یہ سازش ایک سنگین معاملہ ہے اس کو کسی طور نظر اندازہ نہیں کیا جا سکتا چنا نچہ متعلقہ قومی ادارو ں اورخود حکومت کا فرض اولین ہے کہ وہ اس کی چھا ن پھٹک کرے اور سازش میں ملو ث افراد کے خلا ف ملک سے غداری کر نے پر مقدمہ چلائے ۔ لیکن اب تک جو تصویر سامنے آئی ہے اس سے انداز ہو رہا ہے کہ ایسے سنگین معاملے پر حکومت کا سوائے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کے علا وہ کوئی اور رحجا ن نہیں پایا گیا بلکہ وزیر اعظم عمر ان خان کہتے ہیں کہ جب اب انتخاب کی طر ف جا رہے ہیں تو اپو زیشن کو چاہیے کہ وہ بھی انتخابات کا رخ کر ئے وہ سپریم کو رٹ کیو ں چلی گئی ہے ، یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ملک کے خلا ف سازش میں شریک عنا صر کو کیا انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جا سکتی ہے کیا ان کوپھر پارلیمان میں بیٹھنے کا مو قع ملنا چاہیے ۔کیا ملک کے خلاف سازش کر نے والو ں کو بس لازم لگا کر کھلے عام چھو ڑ دینا چاہیے ۔بقول شاعر
سب حفاظت کررہے ہیں مستقل دیو ارکی
جب کہ حملہ ہو رہا ہے مستقل بنیاد پر
کہا جا تا ہے کہ اسپیکر اسمبلی یاہاؤس کا کسٹوڈین ہو تا ہے جو شاید ایک غلط فہمی ہے کیو ں کہ کوئی ایسا قانون موجود ہے جس میں یہ کہا گیا ہو اورنہ آئین میں درج ہے نہ اسمبلی قواعد میں لکھا گیا ہے ۔ پارلیمان کے اصل کسٹوڈین پا رلیمنٹ کے ارکا ن ہیں ، اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی رکن اسمبلی کی رخصت کی درخواست کی منظوری کا اختیا ر تک اسپیکر کے پا س نہیں ہے رخصتی کی درخواست کی منظور ی ایو ان دیتا ہے اسی طر ح کوئی قرار داد یا تحریک پیش کرنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا اختیا ر بھی اسپیکر کے پا س نہیں ہے اس کی بھی منظوری ایو ان سے لینا پڑتی ہے اسپیکر از خود رد یاقبول نہیںکر سکتا ۔ وزیر اعظم کے خلا ف جو تحریک پیش ہوئی وہ ایو ان نے پیش کرنے کی اجا ز ت ایک سو ساٹھ ارکان اسمبلی نے تحریک پیش ہو نے کے حق میں فیصلہ دیا اس طرح ایو ان کی اکشریت سے قرار داد ایوان ایجنڈے میں شامل ہوئی جب وزیر قانو ن فواد چودھری نے نکتہ اعتراض اٹھایا تھا اس کے ساتھ ہی یہ لازم تھا کہ انھوں نے جو حوالہ جا ت دئیے تھے یعنی غیر ملکی خط قومی سلا متی کونسل کے اجلا س کی کا رروائی کے منٹ ایو ان کے سامنے رکھے جا تے اس پر بحث کی جاتی پھر فیصلہ کیا جا نا چاہیے تھا چلیں اس کو چھو ڑیں آگے کی بات کرتے ہیں کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو جا تی اور خدانخواستہ حکومت کو اس میں شکست کا سامنا کرنا پڑ جا تا تو کیا ہو تا یہ ہی کہ وزیر اعظم عمر ان خان اپنے عہد ے پر برقرار نہ رہتے اور نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جا تا ۔ ڈپٹی اسپیکر ی رولنگ کے بعد عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا اور نئے انتخابات کی طرف رخ کیا اپو زیشن بھی تو یہ کہہ رہی تھی کہ جلد ملک میں نئے انتخابات ہونا چاہیں لیکن انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کی جائیں جو ضروری بھی ہیں ، تو شاید ایسا سیا سی اور آئینی بحران پیدا نہیںہو تا سوائے اس کے تحریک کی کامیابی پر عمر ان خان وزیر اعظم برقرار نہ رہتے اب وہ عارضی وزیر اعظم ہیں ان کی جگہ نیا عبوری وزیر اعظم لے گا ایسے میں ،دیکھیں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے ان حالات کے بارے میں بقول شاعر یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ
جس سا یہ دار پیڑ کے نیچے بسے تھے ہم
ہم کو اسی نے پھولنے پھلنے نہیںدیا

مزید پڑھیں:  تنگ آمد بجنگ آمد