مشرقیات

آپ چاہے کتنی ہی مغز ماری کریں آپ کے پلے کچھ نہیں پڑے گا ،اب قانونی عقابوں کی زبردست کمائی کا موقع لگ چکا ہے اس لیے بال کی کھال کھینچنے کے لیے معاملہ دور تک جائے گا ،چاہے فیصلہ کسی کے حق میں بھی آئے ایک بات تو طے ہے کہ ہمارے ہاں قانون موم کی ناک ہے جدھر چاہے اسے پھیر۔۔۔کوئی پہلی دفعہ ایسا تھوڑی ہوا ہے ہم لاقانونیت کی ایک شاندار تاریخ رکھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ قانون سے کھلواڑ کرنے والے تمام کرداروں کو جانتے بوجھتے پس زندان ڈالنے کی بجائے پورے پروٹوکول کے ساتھ اکیس توپوں کی سلامی اور گارڈآف آنر دے کر رخصت کرتے ہیں، تو ایسے میں ”سول نافرمانی”بھی شروع ہو گئی ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات؟خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اگر یہ سچ ہے تو آپ خود دیکھ لیں ہمارے ہاں کے خربوزے کہاں کہاں سے رنگ پکڑ کر آج اپنا رنگ جمانے کے قابل ہوئے ہیں ،ہمیں تو اتنا یا دہے کہ پاکستان بنانے کے بعد قائداعظم کا کام ختم ہو گیا تھا بلکہ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ قائد کا کام تما م کر دیا گیا تھا ،بہرحال یہ تاریخی بحث رہنے دیں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قائد کے عدم بالا کو سدھارتے ہیں ہم نے آمرانہ طبیعت کے نواب زادوں کے دست مبارک پر اپنی بیعت کر لی اور اس مریدی کے کھیل میں سب سے بڑے بھائی آگے بلکہ سب سے آگے قطار میں لگے کھڑے تھے ،تب سے آج تک جو بھی” دس سالہ پلان” سامنے آیا ہے ہم نے چڑھتے سورج کو سلامی دینے کھڑے ہو جاتے ہیں۔دس سالہ پلان میںخربوزے ایک دوسرے کو دیکھ کر رنگ پکڑتے رہے اور اب وہ دن بھی آگیا ہے کہ خیر سے سول بغاوت کی نئی اصطلاح بھی ایجاد کر لی گئی ،اس سے پہلے فوجی بغاوت کا ہم سنتے آئے تھے۔بہرحال ایک بات آپ کو ماننی پڑے گی کہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے سب اس آئین کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔اپنا مفاد سب کو اندھا کر دیتا ہے کہاں کی اخلاقیات اور کہاں کا قانون مفاد پرستی اورلالچ کے سامنے بند باندھ سکے ہیں ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ بھائی کی جائیداد پر نظر رکھنے والا سگا بھائی ہی ہوتا ہے اس کے بعد ہی شہہ ملتی ہے پڑوسی یا کسی اجنبی کو کہ وہ اس جائیداد کو میلی نظر سے دیکھے ،توجناب کچھ ایسا ہی ہورہا ہے اپنے آئین وقانون کے ساتھ ،پہلے اس کے رکھوالوں نے ہی اس کے ساتھ کھلواڑ کیا پھر ان جب یہ رکھوالے اس عادت کا مظاہرہ بار بار کرتے ہوئے اپنے آس پاس یا اریب قریب کے سول بلڈی فولز کی بھی تربیت کرتے لگے تو آج یہ دن آیا ہے کہ جو بڑھ کر اسے تھام لے مینا اسی کا ہے۔جس کو بھی صاحب اختیار بننے کی سوجھتی ہے وہ آئین وقانون پر نہیں مینا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت