چکی کے دو پاٹ

روس نے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا تحلیل ہونا امریکہ کی ایک خودمختار ملک کے اندرونی معاملات میں خودغرضی پر مبنی مداخلت کو ثابت کرتا ہے۔یہ امریکہ کی ایک خودمختار ملک کے داخلی معاملات میں خودغرضی پر مبنی مقاصد کے لئے مداخلت کی ایک اور کوشش ہے۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے خود بھی متعدد بار کہا ہے کہ ان کے خلاف سازش غیرملکی ایماء اور فنڈنگ سے کی گئی۔دوسری جانب امریکہ نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے الزامات کو ایک بار پھر مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ پاکستان میں آئینی اور جمہوری اصولوں کی پرامن طریقے سے بالادستی کی حمایت کرتا ہے۔پاکستان میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادپررائے شماری کے موقع پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے یا نہیں یہ معاملہ عدالت میں ہے لیکن اس سے پیدا شدہ صورتحال کے باعث جہاں ملک میں داخلی اختلافات سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں وہاں اس کے اثرات سے ملک میں دیگر مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں سیاسی طور پر ہی انتشار نہیں بلکہ اس وقت ملک میں عملاً کوئی قانونی حکومت قائم نہیں ایسے میں جب معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت کی جانب سے کسی بھی قسم کے معاملات کو آگے بڑھانے کی ممانعت کی گئی ہے صدرمملکت کی جانب سے بار بار نگران وزیر اعظم کے چنائو کے حوالے سے حزب اختلاف کے رہنما کو نام دینے پر زور دینا بھی آئین و قانون دونوں کے موافق عمل نہیں بہر حال یہ انتشار اور غیر یقینی کی کیفیت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اس حوالے سے عدالت کی جانب سے کوئی فیصلہ نہیں آتا۔ عدالت کی جانب سے کیا فیصلہ آتا ہے اس حوالے سے تو کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی لیکن بہرحال آئین اور قانون کے حوالے سے جو تشویش ملک کے اندر پائی جاتی ہے یہ صرف ملک ہی تک محدود نہیں بلکہ بیرونی دنیا بھی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔روس کی جانب سے اس حوالے سے باقاعدہ بیان جاری کرناسفارتی طور پر اس حد تک مناسب ہے اس پر ماہرین ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں تاہم کسی ملک کے داخلی معاملات کے حوالے سے کسی دوسرے ملک کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس طرح واضح طور پر کوئی بیان جاری کرے ۔وزیر اعظم کے دورہ روس کے حوالے سے خود پاکستان کے اندر پوری طرح اتفاق نہیں بلکہ اس حوالے سے درون خانہ اختلافات اور عدم مشاورت تک کی اطلاعات ہیں جس سے قطع نظر اس سارے معاملے کو بنیاد بنا کر کسی دوسرے ملک پر الزام تراشی نہیں ہوسکتی ۔روس کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا ہے وزارت خارجہ کو اس حوالے سے ان کو مراسلہ لکھ کر اپنی جذبات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ یہ کسی ایک فرد اور افراد کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ریاست پاکستان کا معاملہ ہے اور پاکستان کے اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس پرکسی کو اس طرح کھلم کھلا بیان جاری کرنے کا کوئی حق نہیں اس بیان کی بھی نوبت نہ آتی اگر ہفتہ بھر سے زیر بحث اس معاملے پر پاکستان کے مقتدر حلقوں کی جانب سے کوئی وضاحت آتی ایسا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ایک جانب سے اس معاملے کو پاکستان کی پارلیمان کی اکثریت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا باعث ہے اور یہاں تک کہ ان کو سازشی اور غدار تک ٹھہرایا جارہا ہے یہ عمل زیادہ دیر قابل برداشت نظر نہیں آتا اس سے تضادات بڑھ رہے ہیں اور سوالات اٹھ رہے ہیں جس کا جلد سے جلد حل ا ور تدارک ضروری ہے تاکہ انتشار نہ پھیلے اور ملک بحران کا شکار نہ ہو امریکہ کی جانب سے اس حوالے سے جو بیان دیاگیا ہے وہ اگرچہ زیادہ واضح نہیں لیکن بہرحال پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی اور حکمرانی کی حمایت ضرور کی گئی ہے جواصولی بات ہے اب اس طرح کے الفاظ کے لبادے میں کیا مطلب پوشیدہ ہے اس کی تشریح نہیں ہو سکتی پاکستان کے عوام کو بھی ملک کی آئین کی بالادستی اور حکمرانی پر یقین ہونے میں کوئی دوسری رائے نہیں ۔ روس کی جانب سے جاری اس بیان کو ایک طرف سے ایک فریق کی حمایت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو دخل درمعقولات کے زمرے میں آتا ہے ایسے میں کیا کسی دوسرے ملک یا ممالک کو اس امر کا حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کی مخالفت میں بھی ایسا ہی کچھ بیان جاری کریں اس وقت کیا صورتحال ہو گی اس کے نتائج کیا نکلیں گے یہ ہمارے وزارت خارجہ کے حکام کو بخوبی معلوم ہوگا کسی ملک کے دورے اور دوسرے ملک کے کسی سفارت کار کے مبینہ بیان اور اس جیسے معاملات کا نوٹس لینے سے اگر احتراز برتا گیا تو یہ مداخلت کی ایک نئی راہ ہموار کر سکتی ہے یہ درست ہے کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے معاملات اور تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے اور یوکرائن کے معاملے میں پاکستان میں غیرجانبدار رہنے کا احسن فیصلہ کیا جو اس کا حق ہے اس پر سفارتی طور پر باقاعدہ خط لکھ کر دبائو ڈالنے کی جو غلطی یورپی ممالک کی جانب سے کیا گیا تھااب روس کی جانب سے اسی غلطی کو دہرایا گیا ہے ۔پاکستان ماضی میں سفید ریچھ اور عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش سے متاثر اور اس کے نتائج بھگت چکا ہے ماضی کے دوست آج کے ہر جائی اور ماضی کا دشمن آج دوستی کا جو ہاتھ بڑھا رہا ہے یہ سب عالمی مد وجزر اور حالات کا باعث ہے اور خود انہی کے مفادات کا تقاضا ہے پاکستان کسی کے آنکھ کا تارا نہیں بن سکتا ہمیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے ہمیں کسی بھی ملک کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ ہمارے معاملات بارے کوئی مداخلت و تبصرہ کر سکے اس وقت سارے معاملات ہی غیرملکی عہدیدار کی جانب سے ایک اظہار خیال کے باعث گھمبیر ہیں ایسے میں ایک اور اس طرح کے بیان کے ہم متحمل نہیں سکتے اور نہ ہی پاکستان دو ہاتھیوں کی لڑائی میں آنے کا متحمل ہوسکتا ہے بہتر ہو گا کہ جلد سے جلد ملک کے الجھے ہوئے داخلی معالات سلجھائے جائیں تاکہ پاکستان کی طرف کئے گئے نظروںکا محورتبدیل ہو۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر !!!کم ازکم لیکن آخری نہیں