مغرب اور مسلم دنیا میں خلیج کے اسباب

یو ٹیوب نے عالمی شہرت یافتہ مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا آفیشل چینل بند کردیا ہے۔ یو ٹیوب انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ چینل کو نفرت انگیز اور یہود مخالف بیانات شائع کرنے کی بنیاد پر بند کردیا گیا ہے۔ یو ٹیوب کی جانب سے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے آفیشل چینل کو بند کرنے کے خلاف سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ صارفین کی جانب سے چینل کی بندش پر یوٹیوب انتظامیہ کو اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ یوٹیوب کسی مخصوص لابی یا مذہبی جماعت کا پلیٹ فارم نہیں بلکہ دنیا کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ایک کھلا فورم ہے ،جس پر لوگ بلا روک ٹوک اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ کی جانب سے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں چینلز پر پابندی کو اسلاموفوبیہ کی بد ترین شکل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لاکھوں سبسکرائبرز اور کروڑوں صارفین کا یہ عالمی شہرت یافتہ چینل اسلام دشمن قوتوں کی آنکھوں میں پہلے سے کھٹکتا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر اسراراحمد مرحوم کے آفیشل چینلز کے سبسکرائبرز کی تعداد تقریباً تین ملین ہے جبکہ عالمی شہرت یافتہ مذہبی سکالر کو دنیا میں سننے، دیکھنے اور چاہنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں مذکورہ چینلز کی بندش ایک طرف لاکھوں کروڑوں سننے اور دیکھنے والوں کو ان کے پسندیدہ مذہبی سکالر کے لیکچرز سے محروم کر نے کی ایک کوشش ہے تو دوسری طرف یوٹیوب انتظامیہ کی جانب سے مذہبی تعصب کی عکاس بھی ہے۔اسرائیلی اور مغربی میڈیا اس چینل کو بند کرنے کیلئے یو ٹیوب پر مسلسل دبائو ڈالتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں لندن سے نکلنے والے یہودیوں کی نمائندہ سب سے بڑے اخبار دی جیوش کرانیکل نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ میڈیا کمپین گزشتہ سال جون سے بڑے زور وشور سے جاری تھا لیکن یوٹیوب نے اس میڈیا کمپین کے خلاف دبائو میں آنے سے انکار کردیا تھا۔ لیکن آخرکار یوٹیوب کو بھی مضبوط میڈیا کمپین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ سوشل میڈیا پر صارفین یو ٹیوب انتظامیہ سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا ان کو یہودیوں کے خلاف بولنے والے صرف ڈاکٹر اسرار احمد ہی نظر آئے؟ کیا ان کو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر گھولنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ کیا مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کو ہوا دینے والوں کی آواز انہیں کہیں سنائی نہیں دی ؟ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف کیا کچھ نہیں ہورہا۔ حجاب کے نام پر تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے خلاف منظم کمپین چلائی جارہی ہے۔ گائو ماتا کے نام پر مسلمانوں کو بیچ چوراہے میں گھسیٹا جارہاہے۔ مسجدوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ ہندو اکثریت والے علاقوں میں مسلمان دکانداروں سے لین دین پر پابندی لگادی گئی ہے۔ بھارت میں ان مسلم کش فسادات کو سوشل میڈیا پر دھڑلے سے پیش کیا جارہا ہے ،لیکن کیا یوٹیوب انتظامیہ نے انسانوں کے نام پر ان درندوں کے چینلز کو بند کرنے کی کبھی زحمت گوارا کی ہے؟ ڈنمارک اور فرانس میں جب آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف پوری مسلم دنیا سے آوازیں اٹھ رہی تھیں، تب یوٹیوب حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ گستاخان رسول ملعون سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کو حفاطتی حصار میں کہاں پر رکھا گیا ہے؟ڈاکٹر اسرار احمد ایک نڈر مذہبی سکالر تھے۔ انہوں نے جو کچھ بھی کہا ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ انہوں نے ملک کے اندر بھی سماجی برائیوں کے خلاف دبنگ آواز اٹھائی تھی لیکن موصوف ایک عالمی شہرت یافتہ اور جہاں دیدہ مذہبی سکالر کی حیثیت سے یہودیوں کی چالوں اور مکر و فریب سے بھی بخوبی واقف تھے اور دنیا کو اس حقیقت سے آشنا کرنا چاہتے تھے کہ یہودی کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ قرآن اور حدیث کے حوالے دے دے کر وہ مسلم دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ یہودی اور نصرانی ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ اس سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے ستر کی دہائی میں جب سے تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی تب سے وہ مبلغ اسلام کی حیثیت سے مغربی جمہوریت اور استحصالی نظام حکومت کے خلاف ایک توانا آواز رہے ہیں۔ ان کے پیروکار دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں ان کے پیغام کو عام کرنے کے لئے اسے کسی یوٹیوب کی ضرورت نہیں ہیں۔ ان کے بیانا ت آڈیو اور وڈیو کیسٹس میں پوری طرح محفوظ ہیں۔ یو ٹیوب پر ان کے چینل کی بندش کے بعد ان کے پیروکار ان کے پیغام کو لے کر پوری دنیا میں عام کرینگے۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انہی بے ہودہ حرکتوں کے سبب مسلم اور مغربی دنیا کے درمیان موجودہ خلیج مزید بڑھتا جارہا ہے جس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت پر اٹھتے سوال