کچھ کہہ کرمیں توہین عدالت نہیں کرتا

ملک میں جاری آئینی بحران کے حوالے سے جو تبصرے مختلف حلقوں کی جانب سے آرہے ہیں ان میں خصوصاً ماضی کے ایک مبینہ آئینی جادوگر مرحوم شریف الدین پیرزادہ کا تبصرہ بڑی شدت سے کیا جارہا ہے کہ موصوف اپنے قانونی نکات کی وجہ سے آئین و قانون شکنوں کو بچانے کے لئے ہمیشہ آگے آکر ایسی قانونی موشگافیاں سامنے لاتے تھے کہ عدالتیں دنگ رہ جاتی تھیں اور قانونی ماہرین جنگ ہار جاتے تھے ‘ دراصل قانون تو ہے ہی اعلیٰ قانون دانوں کے آگے ”موم کی ناک” یعنی اگر ذرا سی ذہانت ہو تو ایک ہی قانون کے بارے میں مخالف قانون دان آئینی اور قانونی جنگ لڑتے ہوئے ایک دوسرے کے دلائل کو غلط ثابت کرکے عدالت کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں’ اگرچہ بظاہر معاملہ کچھ اور ہوتا ہے مگر کوئی بھی نکتہ رس وکیل بظاہر مخالف فریق کی جیت کو صرف ایک دلیل سے اڑا کر رکھ دیتا ہے اور مقدمے کا رخ پھیرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ‘ اس حوالے سے آج جب عدالت عظمیٰ میں جاری دستوری جنگ کے حوالے سے فاضل جج صاحبان جب کوئی تبصرہ فرماتے ہیں تو کچھ لوگوں کو امید کی کرن دکھائی دیتی ہے اور مخالفین کو مایوسی دبوچ لیتی ہے تو اگلے یہ چند لمحوں بعد کوئی اور فاضل جج اپنی سوچ کے مطابق تبصرہ کرتا ہے کہ خوش گمانی میں مبتلا فریقوں کی امیدیں ماند پڑ جاتی ہیں جبکہ مایوس ہونے والے فریق حوصلہ پکڑنا شروع کر دیتے ہیں ‘ یہ الگ بات ہے کہ فاضل عدالت مبینہ طور پر مقدمے کی شنوائی (جسے عدالت عظمیٰ نے سووموٹو کے تحت خود ہی شروع کیا ہے ) کے بعد ماہر قانون دانوں کی سوچ کے مطابق زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہی ابتدائی فیصلہ صادر کرکے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا سکتی تھی’ مگر جس طرح اسے طول دیا جارہا ہے (ممکن ہے ان سطور کے شائع ہونے تک ابتدائی فیصلہ آ بھی چکا ہو ) اس پر بعض حلقوں میں مایوسی پھیل چکی ہے اور بد گمانیاں جنم لے رہی ہیں’ ان بدگمانیوں اور مایوسیوں کے ڈانڈے ماضی میں مبینہ نظریہ ضرورت کے تحت ہونے والے فیصلوں سے ملائے جارہے ہیں ‘ بہرحال کیس کے کسی بھی ممکنہ فیصلے سے قطع نظر آج بعض قانون دانوں کے حوالے سے جو تبصرے کئے جا رہے ہیں ان پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں ‘ اگرچہ آج صرف شریف الدین پیرزادہ کی یاد آرہی ہے جنہیں آئینی اور قانونی جادوگر کے نام یاد کیا جاتا ہے ‘ مرحوم نے ساری زندگی بطور وزیر قانون ‘ اٹارنی جنرل کے طور پر مختلف حکومتوں میں خدمات انجام دیں خصوصاً آمرانہ حکومت کو آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کرنے میں کردار ادا کیا ‘ یعنی ان کی قانونی خدمات عوامی امنگوں کے خلاف اور عوام پر جابرانہ حکومتوں کی جانب سے ظلم و جور نافذ کرنے کے لئے وقف رہیں ‘ وہ واقعی قانونی جادوگر تھے اور آئین کی تشریح ایسے کرتے تھے کہ حکومتوں کو ریلیف مل جاتا تھا ‘ اگرچہ ان سے پہلے بھی کمال کے قانون دان گزرے ہیں اور آج کی نسل کو پاکستان کے ابتدائی دور کے ایک اور اہم قانون دان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں ‘ پاکستان کے ابتدائی برسوں کے دوران ملک میں ہونے والے سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے یعنی جب تھوڑے تھوڑے وقفے سے حکومتیں گرائی اور قائم کی جاتی تھیں ‘ ان کی قانونی خدمات بڑی اہمیت رکھتی تھیں ‘ اور جب بالآخر ایوبی مارشل لاء کا نفاذ ہوا تو وہ ہر سطح پر قانونی کمک پہنچانے میں ہراول دستے کا کام کرتے تھے ‘ ان کے علاوہ بھی بڑے بڑے جید ماہرین قانون گزرے ہیں ‘ جن میں محمود علی قصوری کا نام بھی نمایاں ہے ‘ اور ان کی قانونی خدمات عام لوگوں کے لئے ہوتی تھیں ‘ انہی خدمات کی وجہ سے جب برطانیہ کے فلسفی برٹرینڈرسل اور فرانس کے فلسفی ژان پال سارترے نے ویت نام پر مسلط کردہ امریکی جنگ میں بے گناہ ویت نامیوں کے قتل عام کے خلاف ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن بنا کر امریکہ کے خلاف قانونی جنگ چھیڑی تو اس کمیشن میں میاں محمود علی قصوری(میاں محمود علی قصوری سابقہ وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے والد )بھی بطور ممبر شامل تھے ۔وہ ماہرین قانون تھے جو اپنے قانونی مشوروں کے ذریعے حکومتوں کو قانونی جنگ کے دوران ایسے مشورے دیتے تھے کہ ان کو فائدہ ہوتا تھا ‘ اس کے برعکس آج جو لوگ ماہرین قانون کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ‘ ان کو شاطر تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر انہیں قانونی جادوگر قرار نہیں دیا جا سکتا ،اس لئے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران مختلف حکومتوں سے وابستہ ان قانونی ماہرین کے مشوروں سے حکومتوں کو فائدے کے علاوہ سبکی اور شرمندگی کابھی سامنا کرنا پڑا ہے ‘ وقتی طور پر جو فیصلے ان قانون دانوں کی موشگافیوں سے سامنے آئے ان کے بارے میں نظیر صدیقی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہے فیصلہ خود باعث توہین عدالت
کچھ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا
اسی طرح نسیم اے لیہ نے بھی ا یسے فیصلوں کے بارے میں کیا خوبصورت تجزیہ کیا ہے کہ
توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا
بے ساختہ سرکار ہنسی آگئی مجھ کو
ان دنوں جو سب سے اہم کیس عدالت عظمیٰ کے اپنے ہی سووموٹو ایکشن کے تحت تادم تحریر چل رہا ہے ‘ اس میں حکومت کی جانب سے ظاہر ہے جو آئینی افراتفری پیدا ہوئی ہے اس حوالے سے بھی تویقینا سرکار کی قانونی ٹیم کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ‘ کیونکہ تادم تحریر شنوائی ہو رہی ہے جس پر ملک کے بار کونسلز جس قسم کے تبصرے کر رہے ہیں ان کے مطابق ان اقدامات کے ذمہ داروں پر آرٹیکل چھ کا اطلاق بھی کیا جا سکتا ہے ‘حتمی فیصلہ کیا ہوتا ہے ممکن ہے ان سطور کے شائع ہونے تک سب کچھ واضح ہو چکا ہو ‘ تاہم جو لوگ اب”سچ” بول کر اپنا بیانیہ سامنے لارہے ہیں ممکن ہے یہ فیصلہ ان کے ”سچ” کے برعکس ہو ‘ تو پھر ان پر سلیم کوثر کا یہ شعر صادق آئے گا کہ
تم نے سچ بولنے کی جرأت کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
یا پھر ممکنہ فیصلہ خلق خدا کے دلوں کی آواز بھی بن سکتا ہے کہ
نہ جانے خلق خدا کوکونسے عذاب میں ہے
ہوائیں چیخ پڑیں التجا کے لہجے میں
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت