غداریوں کے سر ٹیفکیٹ

ملک عزیز میںسیاسی مخالفین کو غدار ٹھہرانا ‘ ملک کے لئے سکیورٹی رسک قرار دینا ایک عام سی بات ہے اور یہ کھیل قیام پاکستان کے بعد ہی شروع کر دیا گیا تھا ‘ ابتداء میں یعنی تقسیم ہند میں جن سیاسی رہنمائوں نے بوجوہ پاکستان کے قیام کی مخالفت کے بعد اپنے بیانئے سے رجوع کیا اور پہلی دستور ساز اسمبلی میں پاکستان سے وفاداری کا حلف لیا ‘ انہیں بھی نہیں بخشا گیا’ اور غداریوں کے الزامات لگا لگا کر ان کے خلاف پروپیگنڈے کے زور پرایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ جس سے سیاسی تقسیم کی راہ ہموار ہوئی ‘ یہاں تک کہ بعد میں جو قوم یا صوبہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتا اس پر غداری کا الزام لگا کر مطعون کرنے کی سازش شروع کر دی گئی ‘ اس ضمن میں سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کو قومی زبان کے سوال پر پاکستان مخالف ثابت کرنے اور وہاں علیحدگی کے بیج بونے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی گئی ‘ نتیجہ سامنے ہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار اقلیت کی جانب سے اکثریت کو علیحدگی پر مجبور کیاگیا ‘ تاہم یہ تاریخ ہے اور اس حوالے سے تفصیل میں جانے کا یہ موقع ہے نہ محل جبکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد اصولاً جو سبق ہمیں من حیث القوم سیکھنا چاہئے تھا اس سے جان بوجھ کر احتراز کی صورتگری کی جاتی رہی اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں کا استحصال جاری رکھا گیا ‘ ان کے حقوق پامال ہوتے رہے ‘ اگرچہ اس صورتحال پر قابوپانے کے لئے ملک میں مقننہ کی ہیئت دو ایوانی طرز پر رکھ کر ایوان زیریں میں آبادی کے لحاظ سے جبکہ ایوان بالا میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی کا حق اس لئے دیا گیا کہ اگرآبادی کی اکثریت کی بنیاد پردوسرے صوبوں کے حقوق متاثر ہو رہے ہوں تو ایوان بالا میں اس کی روک تھام ہو سکے ‘ لیکن یہ تجربہ بھی اس وقت ناکامی سے دوچار ہوا جب ایوان بالا میں برسر اقتدار جماعت کے اراکین اپنی پارٹی پالیسی کے تحت قانون سازی میں پارٹی قیادت کے احکامات کے تحت اپنے صوبے کے مفادات کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور ہوتے رہے ‘ یوں دیکھا جائے تو مبینہ طور پر ”پارلیمانی ڈکٹیٹر شپ”کے قیام کی راہ ہموار ہونے کے امکانات روشن ہوتے رہے ‘ جبکہ چھوٹے صوبوں کے مفادات کو روندنے کی ایک نئی صورت سامنے آتی رہی ‘ اور جب چھوٹے صوبوں کے اندر سے ان اقدامات یعنی ان کے مفادات کو روندنے پر احتجاج کیا جاتا تو ان پر غداری کے الزامات سے ان کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جاتیں ‘ اس سلسلے میں خود 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹوکی جانب سے چھوٹے صوبوں کی سیاسی قیادت کے خلاف جو اقدامات اٹھائے گئے اور جس کے نتیجے میں این اے پی(نیپ) پر پابندی لگا کر اس کے رہنمائوں کو پابند سلاسل کرکے ان پر ”غداری”کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا اور ملک میں پریس ٹرسٹ کے اخبارات ‘ سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر یکطرفہ پروپیگنڈہ کرکے ان کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ‘ اور لوگوں کے ذہنوں میں زہریلے پروپیگنڈے کی مدد سے عوام کو گمراہ کیاگیا ‘ اس سے پہلے ایوبی دور میں محترمہ فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قراردینے کی مذموم کوشش کی گئی ‘ حالانکہ وہ بانی پاکستان کی ہمشیرہ اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں ان کے قدم بہ قدم چلتی ہوئی ہر قسم کی قربانیاں دیتی رہی تھیں ‘ لیکن ان کا صدر ایوب کی آمرانہ اقدامات کے خلاف صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مد مقابل آنا ہی ان کے لئے مسئلہ بن گیا تھا ‘ یہ الگ بات ہے کہ ایوبی آمریت کی اس سازشی تھیوری کو قوم نے مسترد کر دیا تھا اور حالات بتا رہے تھے کہ ایوب خان کو صدارتی انتخاب میں بری طرح شکست ہو گی ‘ تو اس یقینی شکست کو ”جھرلو” کے ذریعے جس طرح ناکام بنایا گیا وہ بھی ہماری تاریخ کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے ‘ ان حالات و واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے اس پالیسی کو آگے بڑھایا جاتا رہا اور بعد کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملک کے لئے سکیورٹی رسک قرار دیا گیا ‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آدھا ملک گنوا کربھی ہم نے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی ‘ یہ سب کچھ صرف اور صرف اقتدار کو ”گھر کی لونڈی” بنانے کی سوچ رکھنے والوں کی پالیسی کا حصہ رہا ‘ بدقسمتی سے غداریوں کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کا یہ مذموم کھیل آج بھی جاری ہے اس وقت قومی اسمبلی کی غیر آئینی تحلیل کے نتیجے میں جو صورتحال ہمارے سامنے ہے اس میں قومی اسمبلی کے ممبران کی اکثریت کو”غداری کے ا لزام” کا سامنا ہے ‘ اور سابق وزیر اعظم ‘ ان کی جماعت کے افراد اور ان کے ماننے والے تواتر کے ساتھ مدمقابل جماعتوں کے رہنمائوں پر غداری کے الزامات لگا رہے ہیں ‘ اس پر مسلم لیگ(ن)کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے سابق رہنماء میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ اور ان کے ساتھ دیگر جماعتوں کے لوگ غدار ہیں تو ثبوت فراہم کئے جائیں ‘ بصورت دیگر یہ سلسلہ رک جانا چاہئے ‘ چونکہ قومی اسمبلی کی حالیہ تحلیل سے پیدا ہونے والی صورتحال پیچیدہ سیاسی مسائل پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے اور اگر اسے ایسے ہی جانے دیا گیا تو آنے والے دنوں میں جب قوم ممکنہ طور پر نئے انتخابات میں حصہ لینے کے عمل سے گزر سکتی ہے ‘ اگر اس قسم کے الزامات لگانے سے پوری سیاسی قیادت کو نہیں روکا گیا تو سیاسی مخالفین کے بارے میں الزامات سے شدید قسم کی تلخی جنم لے سکتی ہے جس کے نتائج کسی بھی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوسکتے ،اس لئے کہ سیاسی سرگرمیوں کے دوران شہر شہر ‘ گلی گلی ‘ کوچہ کوچہ سیاسی تصادم کے خدشات جنم لیتے دکھائی دیں گے ‘ ہاں ا گر ان الزامات میں واقعی بقول میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کوئی حقیقت ہے تو مبینہ 197”غداروں” کوکیفر کردار تک پہنچانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی جائے ‘ تاکہ ان ”غداروں” سے ملک کو پاک کیا جائے ‘ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کو حتمی طورپر حل کرنا لازمی ہے ‘ اور اگر الزامات غلط ہیں تو ممکنہ آنے والے انتخابات میں سیاسی مخالفین پر غداریوں کے الزامات لگانے پر سختی سے پابندی لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان جو کوڈ آف کنڈکٹ بناتے اس میں”غداریوں کے سر ٹیفکیٹ”بانٹنے کو جرم قرار دے تاکہ سیاسی کلچر سے اس الزام کو حذف کرنے میں مدد مل سکے ‘ اگر ایسا نہ کیا گیاتو انتخابات جب بھی ہوں گے اس کے نتائج کوتسلیم نہیں کیا جاسکے گا۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر !!!کم ازکم لیکن آخری نہیں