”میں چاہتا ہی یہی تھا کہ وہ بے وفا نکلے”

گزشتہ چند ہفتوں میں ملک عزیز پاکستان میں سیاست کے حالات گھنٹوں کے حساب سے بدل رہے ہیں ایک سیاسی پارٹی گھنٹہ قبل حکومتی اتحاد کے ساتھ دینے کا عندیہ دیتی ہے تو اگلے ہی گھنٹے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کررہی ہوتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ایک سیاسی نمائندہ ورکن اسمبلی اپنے اندر ایک جماعت بن کر بیٹھاہے اور اس بات کو ذہن سے نکال کر کہ وہ کس پارٹی کے ٹکٹ پر جیت کر آیا تھا اور اب کس سیاسی جماعت کے پلڑے میں اپنا ووٹ ڈالنے جارہاہے اور کیا ایسا کرنے کا مینڈیٹ اس کو اس کی پارٹی یا اس کے حلقہ کے عوام نے دیا ہے یا نہیں وہ خود ہی اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کررہاہے۔ میں مانتاہوں کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلے بار نہیں ہورہا اس سے پہلے بھی بیسیوں بار فارورڈ بلاک اور نئے دھڑے بن چکے ہیں۔ لیکن اب کی بار تو کچھ بہت ہی زیادہ بے وفائی ہورہی ہے اور عوام تو عوام خود ارکان اسمبلی بلکہ منجھے ہوئے سیاست دانوں کو سمجھ نہیں آرہی ۔ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی یانہیں ۔ حکومت یہی رہے گی یا بدل جائے گیں اور سب سے بڑھ کر اگلے انتخابات بھی ہوں گے یا۔۔۔
ابھی تک کی خبروں کے مطابق تو عوام سے درخواست کی گئی ہے کہ نئے انتخابات کی تیاری کریںمیری طرح آپ کو بھی سمجھ نہیں آرہی ہوگی کہ ہم نے کیا تیاری کرنی ہے جو کچھ کرنا ہے ان سیاست دانوں نے کرنا ہے اسمبلی ٹوٹنے کے بعد ابھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا باقی ہے الیکشن تو ہونے ہی ہیں ہا ں البتہ فیصلہ یہ ہونا ہے کہ یہ جو غدار ہیں یہ لوگ اگلے الیکشن میںحصہ لے سکتے ہیں یا نہیں۔ فیصلہ جو بھی ہو ہر دوصورتوں میں تیاری سیاست دانوں نے ہی کرنی ہے اگر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ لوگ نااہل ہیں تب بھی ہمارا نمبر نہیں آنا ان کے ہی بھائی، بیٹے ، بھتیجے اور اگر کوئی بھی نا ہواتوان کی بہن ،بیٹیاں اگلے الیکشن میں ہوں گی ۔ ٹکٹ دینے والے اور لینے والے وہ ہی ہیں عوام سے نہ کبھی پوچھا گیا اور نہ ہی ایسا آئندہ کبھی پوچھنے کا ارادہ ہے ۔ لہٰذا تیاریاں انہی کو کرنی ہے ہم عوام کا کیا ہے انتخابات والے دن جاکرپولنگ سٹیشن پر لمبی قطار میں کھڑے رہیں گے اور گھنٹوں کے بعد نمبر آنے پر کسی ایک سیاست دان کے نام پر ٹھپہ لگا کر پھر ٹی وی لگا کر رات گئے تک نتائج کا انتظار کریں گے ۔ یہاں یہ بھی ہم عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نتائج رات کو نہیں بلکہ اگلے دن صبح نشر کئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ساری رات جاگ کر گزاریں گے کہ ابھی ہمارے منتخب کردہ امیدوار کو کامیاب قرار دیا جائے گامگر اندر سے ہم بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ نتیجہ کیا ہونے والا ہے اور یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا یہ منتخب کردہ نمائندہ آگے جاکر کیا کیا گل کھلائے گا۔
آج مجھے مجاہد حسین (قلمی نام وسیم بریلوی) کے کچھ اشعار اور غزلیں رہ رہ کر یاد آرہی ہیں۔ پہلے تو غزل کا شعر کہ ” میں چاہتا ہی یہ تھا کہ وہ بے وفا نکلے ۔ اسے سمجھنے کا کوئی تو سلسلہ نکلے” کیونکہ الیکشن کے دنوں میں تو ایسی چکنی چوپڑی باتیں کی جاتی ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ بس ہمارے منتخب کردہ نمائندہ کے اسمبلی پہنچنے کی دیر ہے کیونکہ اس نے اسمبلی پہنچنا نہیں اور ہمارے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے خوب سوچ سمجھ کر بہت سے منصوبے بنانے شروع کرنے نہیںلیکن ہوتا اس کے الٹ ہے وہ سوچتا تو ہے مگر اپنے لئے اور منصوبے بھی بناتاہے لیکن اپنی ہی نسل کے اپنے ہی خاندان کے بارے میں۔ یوں اس کے وفا والے دنوں میں ہم گوں مہ گوں کی کیفیت میں رہتے ہیں اور اس کے بے وفا ہونے کے ساتھ ہی ہمیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوتاہے۔
وسیم بریلوی کی ایک اور غزل کے شعر عرض ہیں
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں میں کچھ کانپتا رہ گیا
رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا
وہ میرے سامنے ہی گیا اورمیں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا
آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ ہے
یہ دیا کیسے جلتا رہ گیا
اس کو کاندھوں پہ لے جارہے ہیں وسیم
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت پر اٹھتے سوال