لطف سیا ست میں کرکراپن

منظر تو یہ ہی ہے کہ جب سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتما د پیش ہوئی تب سے دیکھنے میں یہ آیا کہ سیا ست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت سڑکوں پر یو ں مٹر گشت جیسا کہ عمو ماًاپو زیشن حکومت وقت کے خلا ف مہم جو ہوتی ہے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ حکومت کا احتجا ج دراصل اپوزیشن کی طر ف نہیں ہے بلکہ انتخابات کی مہم منظم کرنے کی لگن ہے ۔ یہاں یہ استفسار ہو تا ہے کہ عمر ان خان کو ایسی کیا جلدی پڑی ہے کہ تحریک عدم اعتما د کے پیش ہو نے کے ساتھ ہی انھوں نے ملک میں انتخابی ماحول اجا گر کر دیا ۔پی ٹی آئی کی حکومت کی کا رکردگی میں کونسی حاشیہ گلداری ہے جس کی بنا ء پر عمر ان خان کی نظریں آئندہ انتخاب کی طرف اٹھ گئی ہیں ۔ اب بھی وہ اپو زیشن سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سارے آئینی وقانو نی دھندے چھوڑے اور انتخابات کی جانب آئے یعنی یہ گز یہ میدان ، جس طرح میدان جنگ میں سب سے کا رآمد ہتھیا ر حواس ہو تا ہے اسی طر ح انتخابی میدان میں بھی حواس ہی کامیابی کی ضمانت ہو تے ہیں پی ٹی آئی کو آئین و قانون شکنی یا اس کی پا سداری کوئی اہمیت نہیں رکھتی وہ انتخابی میدان کی پیچ کی تیا ری میں مگن نظرآرہی ہے کیا پی ٹی آئی کو اپنی برتر ی کا بھروسا ہے جبکہ ناقدین کا تبصرہ ہے کہ گزشتہ تین ساڑھے تین سال کی حکومت کی کا رکردگی سے پی ٹی آئی کی مقبولیت کو گھن لگ گیا ہے اور اس بارے میں گزشتہ تین سال کے دوران ہو نے والے ضمنی انتخابات اور صوبہ کے پی کے میں بلدیا تی انتخابا ت کی مثال پیش کرتے ہیں ، ویسے پاکستان کی تاریخ میں یہ روایا ت رہی ہیں کہ جو پارٹی برسراقتدار آجاتی ہے اس کے زیا دہ تر گن مٹی ہو جا یا کرتے ہیں اورعوام سے رجوع کرنا دشوارہو جایا کرتا ہے ۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ 2013ء سے خان صاحب نے بھی اپنی سیاست کو بھٹو مر حوم کی سیا ست سے منعطف کر لیا ہے چنانچہ ہفتہ عشرہ سے وہ بھٹو مرحوم کو یا د بھی بہت زیا دہ کرنے لگے ہیں ۔ بھٹومرحوم نے بھی وقت سے پہلے انتخابات کا اعلان کیا تھا ان کو گمان تھا کہ جو مقبولیت ان کو برسراقتدار آنے سے پہلے تھی وہ اب دوچند ہوگئی ہے ،شاید پی ٹی آئی کو بھی ایسا ہی گمان ہو ۔لیکن اس کے باوجود سنجیدہ حلقے پوچھ رہے ہیں کہ ایسی کیا عجلت ہے کہ انتخابات کی طرف منہ کرلیا گیا ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سب اچھی طرح جا نتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت بیساکھیو ں پرکھڑی ہے چنانچہ وہ جس قوت سے قدم آگے بڑھانا چاہتے ہیں بیساکھیاں ان کو مجبور کرتی ہیںکہ ان کے سہارے بناء اپنی مرضی سے قدم بڑھانا دشوارہے اپنے قدموں چلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسمبلی میں پی ٹی آئی کو اپنی قوت سے آگے بڑھنے کے لیے اسمبلی میں دوتہائی اکژیت ہی طاقت بخش سکتی ہے ۔ اب یہ سوال ہے کہ کیا خان صاحب اپنی حکومت کی کارکردگی کی دھند میں اپنے اہداف پوراکرجائیں گے ۔ ایسا یقین تب ہی ہو سکتا ہے جب کامیابی کے لیے پشت پناہی بھی پوری طرح حاصل ہوں ۔ یہ تو درست ہے کہ اگر اسمبلی میں کسی کو دوتہائی اکثریت مل جائے تو اس کے قدم پوری طرح جم جایا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مزاج کا عمل دخل گہرا ہو اکرتا ہے ، تحریک عدم اعتماد نے آئینہ سیاست میں جو عکس اتارا ہے اس سے ایک بات شفاف نظرآتی ہے اس کشمکش میں خان صاحب کو اپو زیشن نے نہیںگھیرا ہے خود ان کے اپنوں نے ہلچل پیدا کی ہے ۔جس سے اپو زیشن میں تحریک عدم اعتماد کا حوصلہ پیدا ہو ا ۔ سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاںہے کہ پارٹی کی ایک اکثریت نے جس کو انھوں نے خود لو ٹا قرار دے کر ٹھکرا دیا کی پارٹی کی قیادت سے بغاوت تھی ۔ ایسے موقع پر روٹھ جا نے والوں کو منایا جا تا ہے لیکن پی ٹی آئی کے اکابرین کی جانب سے ان کو راضی کر نے کی کا وشو ں کی بجائے ان کو دشنا می سے نوازا گیا ہے پھر وہ جو اقتدار قائم کرنے میں سنگی بنے تھے وہ بھی چھوڑ چلے ۔کرکٹ کے ایک سابق ممتاز کھلا ڑی رمیز راجا کے بقول عمر ان خان جب ٹیم کے کپتان ہو تے تھے تو وہ بیک وقت ٹیم کے منیجر اور سیلکڑبھی ہوا کرتے تھے ، رمیز راجا کا یہ قول اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ خود پسندی کی راہ میں کسی اصول و ضابطے کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے اس وقت بھی ملک میں جو آئینی بحران پیدا ہوا ہے اسی میں کرکٹ ٹیم کی یہ ہی جھلک نظر آرہی ہے ادھر فلسفی قلقلا خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی کا رکردگی ایک لحاظ سے تسلیم شدہ ہے کہ اس سارے عرصہ میں اس حکومت نے اپوزیشن پر تبّرا پڑھا اورکچھ نہیں کیا ، اب تو پنجاب میںآئینی بحران جنم لے بیٹھا ہے ۔ ان بحرانوں کا نچوڑ یہ نکل سکتا ہے کہ جو ہو یا نہ ہو بس نئے انتخابات ہوں اور اپوزیشن بحرانوں میںالجھی رہے اور اپنی بھڑاس نکالتی رہے ۔اب بھی یہ حالت ہے کہ عدالت میں از خود نو ٹس کی جو سماعت ہو رہی ہے اس میں پی ٹی آئی سے زیا دہ زیادہ وقت حاصل کر کے سیا سی فائدہ حاصل کرنے کی تاک میں لگی ہوئی ہے جبکہ اپو زیشن موشگافیو ں میں پھنسی پڑی ہے ۔تاہم سیا سی مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپنی عددی برتری پی ٹی آئی کے منحرفین سے ہٹ کر واضح کر دی ہے اس کے باوجود پی ٹی آئی نے اس سے کوئی غرض نہیںرکھی بلکہ اس کا سارا رحجا ن انتخابی نعرے بازی کی جا نب ہے غدار ۔ باغی اور ایسے نعرے دے کر سیاست کا بازار گرم کردیا گیا ہے ۔اس تمام کے باوجو د یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اگر انتخابات ہی کا رخ کرنا پڑے تو کیا پی ٹی آئی سولوفلائٹ کے ذریعے اس فضاء کو سر کرلے گی کیو ں کہ اب تو یہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ پارٹی سے ایک بڑی تعداد جن کو الیکٹایبل کہا جاتا ہے وہ دور ہو گئی ہے اتحادیوں نے بھی اپنا مسلک جد ا کرلیا ہے ، کیا اس طرح سڑکو ں کی سیاست کا پھیرا کامیابی کی منازل طے کرادے گا یا کوئی اور بھی گر پنہاں کر رکھا ہے ۔ اب تو غیر جا نبداری کا بھی ذکر بڑا سننے میں آرہا ہے ۔ جس کو مولا نا فضل الرّحمان ہنوز مشکو ک قرار دے رہے ہیں ۔ جو پو ری طرح درست نہیںلگتا ۔

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت