پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کا انتخاب، معاملہ سلجھ رہا ہے یا الجھ رہا ہے؟

ڈیسک) یکم اپریل 2022 کو وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفیٰ کی منظوری کے بعد مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی سیاسی جنگ بام عروج پر ہے، پی ٹی آئی بمقابلہ متحدہ اپوزیشن یا مسلم لیگ ن و پی ٹی آئی کے باغی گروہ، سب ہی اپنی جیت کے دعوے دار ہیں تو ہم نے دیکھا کہ پنجاب اسمبلی کے ایم پیز کو لاہور کے عالی شان ہوٹلوں میں رکھا گیا جس پر پی ٹی آئی نے احتجاجی سیاست بھی کی لیکن نتائج جوں کے توں رہے۔
سیاسی و قانونی جنگ کے بعد آخر عدالت نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کو اختیار دیا کہ وہ وزیراعلیٰ کیلئے ووٹنگ کروائیں لیکن حکومتی اتحاد بشمول پی ٹی آئی و مسلم لیگ ق کے اراکین نے ڈپٹی اسپیکر پر اپوزیشن کے آلہ کار و حامی ہونے کے الزامات لگا کر ان کو آج اسمبلی اجلاس سے روکا بلکہ لوٹا لوٹا کے نعروں سے بڑھ کر باقاعدہ لوٹے اسمبلی میں اچھالے گئے اور ساتھ ہی کچھ اراکین نے ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کیا جسے سیکورٹی سٹاف نے پچا کر چیمبر پینچا دیا، اسمبلی میں دونوں اطراف کے اراکین موجود تھے ہی کہ کچھ ہی دیر ایک ٹولا اپوزیشن ایم پی ایز کا آیا جو غالبا سابقہ کاروائی پر نالاں تھا لہذا انہوں نے اسپیکر و امیدوار وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہی کو زودوکوب کرنا شروع کیا بچانے کیلئے خواتین اراکین اندر آئیں تو کیمرہ کی آنکھ نے دکھایا کہ کس طرح ان کو دھکے دئیے گئے اور پرویز الٰہی کو سٹاف نے بچا کر باہر نکالا جس کے بعد ان کو طبی امداد دی گئی اور اطلاعات کے مطابق ان کا بازو ٹوٹ گیا ہے۔
یہ سب ایک بڑے صوبے کی اسمبلی کی کاروائی سے زیادہ ایک کالج یا یونیورسٹی کی تنظیمی کاروائیاں زیادہ لگ رہیں جس میں سب سے زیادہ نقصان صوبے کے عوام کا ہو رہا ہے لیکن کیا نمائندے اس سب سے بے خبر ہیں؟
سیاسی معملات افہام و تفہیم اور دور اندیشی سے طے کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں نا جانے کیا روش چلی آئی ہے کہ جب تک ذاتی مفاد حاصل نا ہو تو قومی و صوبائی وقار داؤ پر لگانا معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔
سارا دن دنگا دساد کے بعد آخر کار وزیراعلیٰ پنجاب کی ووٹنگ میں حمزہ شہباز نے 197 ووٹ حاصل کئے جبکہ پی ٹی آئی اور ق لیگ نے بائیکاٹ کیا۔پرویز الہی نے کہا کہ وہ پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کے عمل کو تسلیم نہیں کریں گے۔قبل ازیں پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے دوران سکیورٹی سٹاف نے پرویز الہیٰ کو حصار میں لے کر ایوان سے باہر نکالا۔ان کا کہنا تھا کہ ’حمزہ شہباز نے ہدایات دیں جس کے بعد مجھ پر حملہ کیا گیا۔پرویز الہیٰ نے بتایا کہ اس پورے معاملے کا قصوروار ڈپٹی سپیکر ہے اور اس کا سرغنہ حمزہ شہباز ہے۔ ہم 35 برس شریف خاندان کے ساتھ رہے ہیں ہمیں پتا ہے کہ وہ کیسے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
‘عوام جانتے ہیں کہ لوگوں کی وفاداریاں بدلی ہیں سیاسی طور پر ایک بھونچال آیا ہے لیکن معاملات کو سلجھانا ضروری ہے تاکہ دوبارہ عوام تک اختیار آ سکے اور عوام اپنی مرضی کا فیصلہ کر پائیں بروقت انتخابات اب وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:  عرفان قادر ایڈوکیٹ وزیراعظم کے مشیر برائے قانونی امور تعینات