سچ جھوٹ تری آنکھ سے ہو جاتا ہے ظاہر

پشاور ہائیکورٹ نے ضم اضلاع میں ایم این اے کے نام سے جاری ترقیاتی منصوبوں کے اشتہار کے خلاف دائر رٹ پٹیشن نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ عوام کے ٹیکس سے مکمل ہونے والے منصوبوں کے اشتہارات ایم این اے کے ناموں سے نہیں جاری ہونے چاہئیں نہ ہی ان پر ارکان اسمبلی کے ناموں کی تختیاں لگنی چاہئیں ‘ گویا فاضل عدالت نے با الفاظ دیگر یہ کہہ دیا ہے کہ ”یہ ان کے ذاتی فنڈز” تو نہیں ہیں کہ نہ صرف اشتہار میں ایم این اے کے نام کی تشہیر (مع تصویر) کی جائے۔تاہم بدقسمتی سے ایک مدت سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے تو اس قسم کی بدعت ضیاء الحق کے دور سے پہلے نہیں تھی ‘ نہ صرف یہ صورتحال ایسی تھی بلکہ عوامی نمائندوں کو سرکاری فنڈز ریوڑیوں کی طرح بانٹے جاتے تھے ‘ صرف بڑے بڑے منصوبوںپر ایوبی دور میں صدر مملکت کے نام کی تختیاں لگائی جاتی تھیں ‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کسی قسم کے فنڈز کی یوں بندر بانٹ ہوتی تھی جو ضیاء الحق نے ”سیاسی رشوت” کے طور پر ملکی سیاست میں رواج دی ‘ پہلے انہوں نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا ڈول ڈالتے ہوئے سیاسی رہنمائوں کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کا جال بچھایا ‘ اس وقت کی سیاسی قیادت اس جال میں یوں پھنسی کہ اس کے لئے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی کیفیت ہو گئی تھی ۔ کیونکہ سیاسی رہنما ضیاء الحق کی حکومت کو ناجائز سمجھتے تھے ‘ انتخابات میں حصہ لیتے تو اس کی غیر آئینی حکومت کو گویا تسلیم کر لیتے او حصہ نہ لیتے تو ضیاء الحق کو کھل کھیلنے کا موقع مل رہا تھا ‘سیاسی قیادت اس کی اس چال میں بری پھنس چکی تھی ‘ اور انتخابی عمل سے خود کو باہر رکھنے کی غلطی کر بیٹھی بعد میں سیاسی رہنمائوں نے اس غلطی کو تسلیم بھی کر لیا تھا ‘ جبکہ جو لوگ ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کا انتخاب لڑے ان پر انتخابی اخراجات کی تلوار لٹکا دی گئی جبکہ مقررہ اخراجات میں کوئی بھی شخص انتخابی عمل پورا کرنے کے قابل نہیں تھا اور جب یہ لوگ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر کی حیثیت سے اخراجات کی تفصیل الیکشن کمیشن میں جمع کرانے کے پابند کئے گئے تو ظاہر ہے کہ کم سے کم اخراجات کرائے ‘ اس سے پہلے ضیاء الحق ”ریفرنڈم” کے ذریعے خود بھی دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بولنے کے مرتکب ہو چکے تھے ‘ ریفرنڈم میں صرف ایک سوال رکھا گیا تھا کہ اگر آپ ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہوں اور آپ کا جواب ”ہاں” میں ہے تو میں (ضیاء الحق) اگلے پانچ سال کے لئے ملک کا صدر ہوں ‘ یوں ایک”عجیب الخلقت” سوال کے ذریعے جس کی ظاہر ہے کون بدبخت مخالفت کر سکتا تھا ‘ موصوف نے خود کو ملک پر مسلط کرنے کی راہ ہموار کی ۔ اس کے بعد اپنی ہی اسمبلیوں کے ارکان ے ”جھوٹ” بلوایا یعنی اخراجات کے غلط گوشوارے جمع کرانے پر انہیں مجبور کیا ‘ مگر قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب فرماتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ میں جانتا ہوں آپ سب نے اخراجات کے غلط گوشوارے جمع کرا کے جھوٹ بولا ہے اس لئے میں ان تمام گوشواروں کو رد کرتے ہوئے آپ سب کو اخراجات کی تفصیل سے ماوراء قرار دیتے ہوئے یہ شرط واپس اس لئے لیتا ہوں کہ مجلس شوریٰ کی ابتداء جھوٹ سے نہیں کرنا چاہتا ‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان ”جھوٹے ممبران” کو صریح غلط بیانی کا صلہ یہ دیا کہ انہیں ترقیاتی فنڈز کے نام پر لاکھوں (جو اب کروڑوں ہیں) روپے کے صوابدیدی فنڈز دیئے اور یہیں سے اس بدعت کا آغاز ہوا کہ ان فنڈز سے مختلف ترقیاتی منصوبوں (گلیوں ‘ نالیوں ‘ آبنوشی) وغیرہ وغیرہ کی سکیموں کو مکمل کراتے ہوئے ایم این ایز ‘ ایم پی ایز کو یہ موقع ملا کہ وہ ان منصوبوں پر اپنے ناموں کی تختیاں لگوانا شروع ہو گئے ‘ گویا یہ ان کا ذاتی پیسہ تھا اور یہ اپنے اپنے حلقوں میں ان منصوبوں پر بڑے فخر سے اپنے ناموں کی تختیاں آویزاں کرنے لگے ‘ معاملہ یہاں تک رکنے کے بجائے مزید آگے بڑھتا چلاگیا اور اس کے بعد بلدیاتی اداروں کے اراکین بھی اس ”بدعتی نہر” میں غوطے لگانے لگے اور آپ گلیوں ‘ بازاروں ‘ محلوں میں کہیں بھی نکل جائیں ‘ چھوٹے چھوٹے بلدیاتی کاموں پر چیئرمین سے لیکر عام کونسلروں کے ناموں کے ”سائن بورڈز” نصب دکھائی دیتے ہیں ‘ اس ضمن میں اس ”بدعت” پراپنے کالم میں بار ہا ہم نے تبصرہ کرتے ہوئے یہی سوال اٹھایا کہ اس مبینہ”منافع بخش” کاروبار پر یہ عوامی نمائندے نہ صرف اشتہارات میں اپنے نام مع تصاویر شائع کراتے ہیں بلکہ ان پر اپنے ناموں کی تختیاں لگوا کر عوام پر احسان کرتے ہیں جس کاانہیں کوئی اخلاقی اور قانونی حق نہیں ہے ‘ کیونکہ ا ن کو ان مناصب پرعوام ہی نے ووٹ ڈال کر بٹھایا ہے اس لئے اصولاً تو انہیں عوام کا شکر گزار ہونا چاہئے نہ کہ یہ عوام کے ماں باپ پر احسان جتاتے ہوئے منصوبوں والی تختیوں پر اپنے نام کنندہ کرواتے پھریں ‘ یعنی بقول ایوب صابر مرحوم
مجھے محفوظ کر لے اے زمانے
میں اک کتبہ ہوں مٹتا جارہا ہوں
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے سے پہلی حکومتوں کے منصوبوں پر اشتہار بازی اور تختیوں پر شدید اعتراضات کرتے ہوئے یہاں تک کہتے تھے کہ یہ ان کے باپ کا پیسہ ہے جو یہ ہ اشتہار میں اپنی تصاویر شائع کرواتے ہیں اور مختلف منصوبوں کواپنے ناموں سے چلاتے ہیں ‘ اسی لئے انہوں نے اقتدار میں آتے ہی بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ اور اسی قبیل کے دیگر منصوبوں کے نام تبدیل کئے ‘ مگر بعد میں نہ صرف ہر اشتہار میں حکومتی اکابرین کی تصاویر ‘ سائن بورڈز اور بل بورڈز پر وزیر اعظم کے علاوہ متعلقہ وزراء بلکہ دیگر ذمہ داران کی تصویریں دکھائی دینے لگیں ‘ یہاں تک کہ مختلف سکیموں کے لئے جو کارڈز ڈیزائن کئے گئے ان پربھی ا پنی جماعت کے رنگ ”بکھیرتے” ہوئے انہیں ”انصافی” پیمانے سے ماپنا اور تولنا شروع کیا ‘ اس لئے عدالت عالیہ پشاور میں سماعت کے دوران جس منصوبوں کے حوالے سے یہ ریمارکس دیئے گئے کہ عوامی منصوبوں پر ایم این ایز کے ناموں سے نہ تو اشتہارات چلائے جائیں نہ ان پر متعلقہ عوامی نمائندوں کے ناموں کی تختیاں لگائی جائیں تو اخباری خبر کے مطابق جس منصوبے پر اعتراض کیا گیا وہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور کے حلقہ ”ارادت” میں واقع ہے اگرچہ وزارت مذہبی امور کے حوالے سے ملکی سطح پر بھی جو سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی رہیں ان کے بڑے بڑے اخباری اور الیکٹرانک میڈیا اشتہارات میں بھی موصوف کی تصویر لگائی جاتی تھی ‘ بہرحال فاضل عدالت نے ایک اصولی فیصلہ دے کر گویا تمام عوامی نمائندوں کی تصاویر اور ناموں کی ت شہیر پر پابندی لگا دی ہے جو ایک مناسب فیصلہ ہے اور اب اس قسم کے منصوبوں کے اوپر ان”عوامی نمائندگان” کے ناموں کی تختیاں نصب ہونا بند ہو جائیں گی ‘ خواہ وہ ایم این ایز ‘ ایم پی ایز ‘ بلدیاتی نمائندے ہی کیوں نہ ہوں ‘ تاہم جو بدعت اس حوالے سے چلی ہوئی ہے اسے اتنی آسانی روکنا”ممکنات اور ناممکنات” کے بیچ کہیں اٹک نہ جائے ۔ کہ بقول عباس تابش
اے حروف تہجی کی کیا مجال کہ وہ
تجھے شمار میں لائیں ‘ ترا حساب کریں

مزید پڑھیں:  پانی کا تحفظ اور ماحولیاتی بیداری