تدبر سے کام لینے کی ضرورت

تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کی جانب سے اسلام آباد پر قبضے کی دھمکی اور صوبے میں مخالف جماعتوں کے سیاسی قائدین اور کارکنوں کے خلاف مقدمات اور کارروائی کی تیاری سے سوائے کشیدگی میں اضافہ کے کچھ نہ ہو گا اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی سوچ رکھنے والوں کو اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ اس طرح سے وہ اپنے ہی صوبوں کو تختہ مشق بنا دیں گے امن و امان کے مسائل کھڑے ہوں گے اور وفاق وصوبوں کی کشیدگی میں اضافہ ہو گا جوگورنر راج کے نفاذ اور اس سے بھی خدانخواستہ ایک قدم آگے بڑھ کر قدم کے خطرات اضافہ کا کرے گا ایک ایسے وقت میں جب ہوائوں کا رخ تبدیل ہوا ہے سیاست اور مصلحت دونوں کا تقاضا ہے کہ اس کا مقابلہ استقامت سے کیا جائے ماضی میں جب بھی اس طرح کی صورتحال سے سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کو گزرنا پڑا ہے اس وقت ان کی جانب سے کیا رویہ اور حکمت عملی اختیار کیاگیا اور وہ کس طرح سے ابتلاء کے دور سے سرخرو ہوکر نکلے تحریک انصاف ان سے بڑھ کر استقامت کا مظاہرہ کرکے ہی اس بحران سے نکل سکتی ہے کشیدگی میں اضافہ سے مزید بحران جنم لیں گے اور ممکن ہے کارکنوں کوسخت حالات جھیلنے پڑیں جس کا متحمل ہونا آسان نہ ہوگا بہتر حکمت عملی یہی ہو گا کہ کسی بڑے امتحان سے پہلو تہی کرتے ہوئے حالات کا مقابلہ کیا جائے اور کسی حالت میں بھی قانون کاغلط اور جانبدار استعمال نہ کیا جائے جو مقدمات تحریک ا نصاف کی قیادت اور رہنمائوں پر قائم کئے گئے ہیں ان کا حل سٹریٹ پاور کی بجائے عدالتی و قانونی جنگ میں ڈھونڈ نکالاجائے اس وقت تحریک انصاف کی قیادت کی استقامت اور اپنی جماعت اور کارکنوں کو متحرک اور متحد رکھنے میں ہے سیاسی جدوجہد میں مصلحت اور حالات کے جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے آئندہ کی راہ نکالنا ہوتا ہے ایسے میں کوئی ایسا کام کرنے سے پرہیز کرنا بہتر ہوگا جو مستقبل کی راہ کھوٹی کرے ۔
یقین دہانی کے باوجود متاثرین سیلاب کی امدادسے محرومی
ٹانک میں متاثرین سیلاب کا یقین دہانی کے باوجود امداد نہ ملنے پر احتجاج تنگ آمد
بجنگ آمد کے مصداق ہی نہیں بلکہ اس سے اس امر کا بھی اظہارہوتا ہے کہ حکومتی ادارے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ دونوں کے احکامات اور وعدوں پر ہنوز عملدرآمد کرانے میں ناکامی کا شکار ہیں واضح رہے کہ سیلاب کی بڑے پیمانے پر تباہ کاریوں پروزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے پائی کا دورہ کیاانفراسرکٹرکچر کی بحالی8 ہزار فٹ لمبی شہر پناہ کی تعمیر سمیت سیلاب سے تباہ ہونے والے فی مکان کے لئے وزیر اعظم نے10 لاکھ جبکہ وزیر اعلیٰ نے8 لاکھ معاوضہ جزوی تباہ شدہ مکان کے لئے بالترتیب4لاکھ اور2 لاکھ50 ہزار روپے دینے زخمیوں کے لئے 2لاکھ اور1 لاکھ60 ہزار روپے معاوضے دینے جبکہ شہداء کے لئے بالترتیب 10 لاکھ اور8لاکھ روپے مالی مدد فراہم کرنے کے اعلانات کئے تھے تاہم معاوضوں اور دیگر اعلانات کو تاحال عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے پائی کے سیلاب زدگان کی جانب سے بار بار ضلعی انتظامیہ سے معاوضوں کی ادائیگی کے مطالبات کئے جاتے رہے ہیں لیکن تقریبا ًڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود سیلاب زدگان کو کسی بھی قسم مالی مدد فراہم نہیں کی گئی جس پر متاثرین کا احتجاج بجا ہے۔ صوبے میں سب سے پہلے متاثرہ ضلع کے عوام کا مرکزی اور صوبائی حکومت کے سربراہوں کے دورے اور اعلانات کے باوجود اگر محرومی کا یہ عالم ہے تو پھر بعد میں سیلاب کا شکار ہونے والے علاقوں اور چترال کے دور دراز اور دشوار گزار علاقوں کے عوام کی مشکلات کا کیا عالم ہوگا جو بجلی اور مواصلات کے ذرائع کی مکمل بندش کے باعث اپنی آواز بھی حکام تک جدید ذرائع سے پہنچانے سے قاصر ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹانک کے مظاہرین اور عوامی شکایات کو پورے صوبے کے متاثرہ علاقوں کے عوام کے مسائل اور حالات پر منضبط سمجھا جائے اور عوام کی شکایات دور کرنے اور ان کو امداد فراہم کرنے کا عمل تیز کیا جائے تاکہ آمدہ سردیوں سے قبل بے گھر ہونے والے متاثرین خاص طور پر اپنے لئے چھت کا انتظام کرسکیں۔متاثرین کا احتجاج وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا دونوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی یقین دہانی اوراعلان کے باوجود متاثرین سیلاب احتجاج پر مجبور کیوں ہوئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلا تاخیر وعدے کے مطابق ان کی فوری مدد کی جائے اور ان کی بحالی کے لئے موثر اقدامات کا بھی فوری آغاز ہونا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  پانی کے ضیاع پر افسوسناک خاموشی