ے حجاز میں تجارتی سرگرمیاں

دورِ نبوی سے پہلے حجاز میں تجارتی سرگرمیاں

مکہ کی زمین اگرچہ پیداوار کے قابل نہیں تھی، مگر تجارتی کاروبار کے لیے نہایت موزوں تھی۔ یہاں مشرق و مغرب کے ڈانڈے ملتے تھے،ایران و عراق’ یمن’ شام اور افریقہ کے تجارتی تعلقات کی درمیانی کڑی یہی شہر تھا۔ قریش اس قدرتی نعمت کو پہچانتے تھے اور جہاں تک ان کی گنجائش ہوتی تھی وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
بعثت نبوی(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی بنائے جانے) سے تقریباً دو سو برس پہلے قریش کے مشہور و ممتاز سردار ہاشم نے رحلت الشتاء والصیف(سردی اور گرمی کے موسم دو کوچ) کا دستور ڈال دیا تھا۔گرمیوں میں مکہ والوں کے تجارتی قافلے شام اور انقرہ جاتے تھے جہاں اس زمانہ میں ٹھنڈ ہوتی تھی،خوشگوار موسم’صحت بخش آب و ہوا کا لطف بھی اٹھاتے اور تجارت بھی کرتے اور سردیوں میں یہ قافلے حبشہ اور یمن جاتے تھے۔ ہاشم اور اس کے بھائیوں نے مختلف ممالک سے عربوں کے لئے آزاد تجارت کے سرٹیفکیٹ(پروانے) بھی حاصل کر لئے تھے۔ عرب میں قریش کی عظمت کا ایک بڑا سبب یہ تجارتی اقتدار بھی تھا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نے ترقی کی اور اس قابل ہوئے کہ تجارتی قافلے کے ساتھ سفر کر سکیں تو آپ نے اس شریف پیشہ کو اپنانا چاہا لیکن روپیہ آپ کے پاس نہیں تھا تو آپ نے دوسروں کے سرمایہ سے تجارت شروع کر دی۔ بیرونی تجارت میں حصہ لیا اور جیسا کہ عبداللہ بن ابی الحمس کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے آپ مکہ میں گھوم پھر کر بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔ قریش کے شریفوں کا سب سے با عزت پیشہ سوداگری اور تجارت تھا۔ جب ہمارے رسول کاروبار سنبھالنے کے امور سے واقف ہوئے تو اسی پیشہ کو اختیار فرمایا۔آپ کی نیکی’ سچائی اور اچھے برتائو کی شہرت تھی۔ اس لئے اس پیشہ میں کامیابی کی راہ آپ کے لئے بہت جلد کھل گئی۔ ہر معاملے میں سچا وعدہ فرماتے اور جو وعدہ فرماتے اس کو پورا کرتے۔
تجارت کے کاروبار میں آپ اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔سائب نامی آپ کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان’ آپ میری تجارت میں شریک تھے’مگر ہمیشہ معاملہ صاف رکھا’ نہ کبھی جھگڑا کرتے’ نہ لیپ پوت کرتے تھے۔ آپ کے کاروبار کے ایک اور ساتھی کا نام ابو بکر رضی اللہ عنہ تھا۔
وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے۔ وہ کبھی کبھی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ قریش کے لوگ آپ کی خوش معاملگی، دیانتداری اور ایمان داری پر اتنا بھروسہ کرتے تھے کہ بے تامل اپنا سرمایہ آپ کے سپرد کر دیتے تھے۔ بہت سے لوگ اپنا روپیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امانت رکھواتے تھے اور آپ کو امین یعنی امانت والا کہتے تھے۔ (کامیاب تاجر)

مزید پڑھیں:  خیبرپختونخوا حکومت کا اسمبلی اجلاس بلائے بغیر بجٹ منظوری پر غور