حوصلہ افزاء خبر؟

حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حالیہ اجلاس کی اندرونی کہانی جو ذرائع ابلاغ کے توسط سے سامنے آئی ہے، اس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہبر میاں نواز شریف نے تین سو یونٹ تک بجلی صارفین کو مفت دینے کی تجویز دی ہے، میاں نواز شریف نے کہا کہ ان صارفین کو سولر سسٹم لگا کر دیں یا مفت بجلی فراہم کریں، انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کرنی ہے تو عوام کو ریلیف دیں، ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ نے اجلاس کو بتایا کہ اگست تک کا وقت دیں تو ڈالر200 پر آ جائے گا اور تیل اور بجلی کی قیمتیں بھی کم ہوں گی، مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر شکوہ کیا کہ بعض حکومتی معاملات ہم سے پوچھے بغیر ہو رہے ہیں، اس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ آپ سے مشاورت ہونی چاہئے، میاں نواز شریف نے اس موقع پر کہا کہ کبھی سوچا نہیں تھا کہ اس طرح حکومت لیں گے، یہ حکومت لے کر بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سب سے بڑا سبب بجلی اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جن کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، جب تک تیل کی قیمتوں میں کمی اور بجلی کے بلوں پر وصول کئے جانے والے ناجائز ٹیکسوں کا خاتمہ نہیں ہوتا، تب تک مہنگائی کا توڑ ناممکن ہی ہے، وزیر اعظم نے چند ہفتے پہلے اگرچہ بجلی بلوں پر عائد کئے جانے والے ٹیکس ایف پی اے کو محدود کرتے ہوئے عوام کو کھ ریلیف دینے کی کوشش ضرورکی، تاہم بعد میں وفاقی وزیر توانائی نے اس بندو بست کو عارضی قرار دیتے ہوئے آنے والے مہینوں میں دوبارہ وصول کرنے کا بیان دے کر عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا، جب کہ حکومت نے سولر سسٹم لگانے کیلئے قرضے دینے کا عندیہ بھی دے دیا تھا مگر بعض اطلاعات کے مطابق جن لوگوں نے ازخود سولر سسٹم لگا کر واپڈا کو فالتو بجلی فروخت کرنے کا اہتمام کیا ہے، اس پر بھی کچھ منفی خبروں کی وجہ سے عوام میں تشویش دوڑ گئی تھی، بہرحال اب (ن) لیگ کے رہبر میاں نواز شریف نے تین سو یونٹ تک مفت بجلی دینے یا ایسے گھروں کو سولر سسٹم کے قیام میں سہولت فراہم کرنے کی جو تجویز دی ہے اس پر اگر عمل کیا جائے تو عوام کو مشکلات سے چھٹکارا ملنے میں آسانی ہوگی، تاہم سارا مسئلہ ملکی وسائل کی دستیابی کا ہے، اگر بقول وزیر خزانہ آنے والے ماہ اگست تک ڈالر کی قیمت دو سو روپے تک لانے میں حکومت کو کامیابی مل گئی تو پھر عوام کی مشکلات آسان ہو سکیں گی۔
ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ناروا سلوک
اسلام آباد کی پولیس نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے باہر عمران خان کی نااہلی کیس کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے ایم این اے صالح محمد خان کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی، ان کی توہین کرنے اور بعدازاں تھانہ میں ان کے گلے میں تختی ڈال کر تصویر وائرل کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد نے متعلقہ تھانہ کے سی آر او انچارج اور واقعہ میں ملوث پولیس اہکاروں کو معطل کر کے انکوائری کا حکم دے دیا ہے، جسے درپیش حالات میں مناسب قرار دیا جا سکتا ہے، تاہم اسے بعد ازمرگ واویلا قرار دینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے، چونکہ متعلقہ ایم این اے کا استعفیٰ تا حال منظور نہیں کیا گیا اور حال ہی میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ کسی رکن پارلیمنٹ کو سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ کو اطلاع دیئے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اس واقعے کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے، جب کہ اس حوالے سے چھوٹے صوبوں کے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ماضی میں بھی ناروا سلوک کے واقعات ریکارڈ پر ہیں اور سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اس سلوک کو چھوٹے صوبوں کے ساتھ تعصب سے تشبیہ دی جا رہی ہے، اگر متعلقہ ایم این اے نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ہے تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کرنا ضروری ہے مگر توہین کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دینی چاہئے۔
سرکاری ملازمین کی فکر کیجئے
اخبار مشرق پشاور کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین کو اکتوبر کی تنخواہیں اور پینشن بھی تاخیر سے ملنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں، یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھی صوبائی خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت کو ملازمین کو ادائیگی کے لالے پڑ گئے تھے اور پھر وفاقی حکومت نے ریسکیو کیلئے آگے بڑھ کر لگ بھگ30 ارب روپے ادا کر کے صوبائی حکومت کو اس مشکل سے نکالا تھا، اس کے بعد یہ اطلاعات گردش کرتی رہیں کہ صوبے کی حکومت یا تو دیوالیہ ہو چکی ہے یا پھر دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے، اب یہ جو تازہ اطلاع آئی ہے یقیناً اسے تشویشناک قرار دینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں، خدا کرے کہ یہ خبردرست نہ ہو اور صوبائی حکومت کو اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں کوئی مشکل درپیش نہ ہو، جبکہ صوبائی وزیر خزانہ ہی اصل صورتحال واضح کر سکتے ہیں اور ہونے والی بے چینی کا خاتمہ کر دیں گے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟