”ڈریکولا” کو” سانتا کلاز” بنانے کا کھیل

سری لنکاکی بائیں بازو کی جماعت جنتا ویمکتی (جے وی پی) کے سربراہ انورا کمارا دسا نائیکے نے کہا ہے کہ اگر ہندوستانی حکومت سے سری لنکا کو مالی امداد فراہم نہ ہوتی تو ملک مزید معاشی مشکل میں پڑجاتا ۔ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ ہندوستان نے سری لنکا کو چھ ماہ میں 3.8بلین ڈالر کی امداد دی جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈز آئی ایم ایف نے چار برس میں صرف 2.9بلین ڈالر فراہم کئے ہیں ۔ہندوستانی مدد کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے ایسے وقت میں سری لنکا کی مددکی جب اس ملک کی حکومت بھی عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھی ۔بھارت کی اس مسیحائی اور سری لنکا کو ریسکیو کرنے کے کامیاب آپریشن کا اعتراف کرنے کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں خورا ک اور اقتصادیات کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کے خلاف احتجاج کا نیا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔جے وی پی سر ی لنکا کی ایک بائیں بازو کی جماعت ہے اور فطری طور پر یہ تاریخ کے گزشتہ ادوار میں سوویت یونین اور چین کے ساتھ نظریاتی قربت رکھتی ہے ۔یہ جماعت اپنے روایتی کمونسٹ سٹائل کے ذریعے1971اور 1987میں بڑی اور خوں ریز بغاوتوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کی ناکام کوششیں کر چکی ہے۔ان بغاوتوں میں ہزاروں افراد کام آئے تھے۔اس طرح سر ی لنکا کے ایک کمونسٹ لیڈر کا بھارتی امداد پر کھلا اظہار تشکر خاصا عجیب اور دلچسپ ہے مگر یہ قطعی بے سبب بھی نہیں کیونکہ چار برس میں آئی ایم ایف اور چھ ماہ میں بھارت کی امداد کا تناسب حیرت انگیز ہے ۔آخر آئی ایم ایف کس دن کے انتظار میں سر ی لنکا سے ہاتھ کھینچے اور مٹھی بند رکھے بیٹھا رہا ۔اس لاتعلقی اور بے اعتنائی کی ایک وجہ سر ی لنکا میں ہمبن ٹوٹا کی بندرگاہ میں چین کی سرمایہ کاری اور بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبوں میں اس ملک کی دلچسپی تو ہے مگر کیا یہ بھارت کو جنوبی ایشیا کی بیمار معیشتوں کا مسیحا اور معالج بنانے کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا ؟ دنیا میںآئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے بین الاقوامی سیاسی ہتھیار ہونے میں اگر کوئی غلط فہمی تھی اب دور ہو چکی ہے ۔یہ ادارے ٹیکنیکل سے زیادہ اب سیاسی اور سفارتی دبائو اور نافرمانوں کی کلائی مروڑنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔بھارت تامل باغیوں کا تخلیق کار اور معاون تھا ۔تامل ٹائیگر اکثریتی سنہالی آبادی کے خلاف سرگرم رہی۔تامل تحریک کا زور توڑنے کے لئے پاکستان نے سری لنکا کو اپنی فوجی خدمات پیش کیں اور اس خونیں تحریک سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔سری لنکا کے اقتصادی طور پر تباہ اور دیوالیہ ہونے کے اس سفر میں اب بھارت ڈریکولا کی بجائے سانتا کلاز کے ایک مہربان کردار کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔اس کا ثبوت یہ کہ ایک کمونسٹ لیڈر بھارت کی ایسی امداد کا شکریہ ادا کر رہا ہے جس سے سر ی لنکا کا عارضہ پوری طرح ختم بھی نہیں ہوا۔سری لنکا بھارت کے ڈریکولا سے سانتا کلاز بننے کے اس سفر اور تبدیلی کا رول ماڈل ہے ۔حقیقت میں پاکستان کی معیشت کو اسراف ،منی لانڈرنگ ،کرپشن کے ذریعے ایسا معاشی مریض بنایا گیا ہے جس کو مسیحائی کے جوہر دکھا کراُٹھانا بھارت کی ذمہ داری ہے۔سری لنکا کی طرح پاکستان اور بھارت کے تعلقات کاماضی قدم قدم پر تلخ یادوں سے بھرا ہے اور آج بھی دونوں ملکوں میں معاشی اور سفارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔جنوبی ایشیا میں جس ملک میں بھارت کا ڈریکولا کا تاثر قائم اور مستقل ہے وہ پاکستان ہے ۔دونوں ملکوں میں تین بڑی جنگیں اور لاتعداد چھوٹی اور پراکسی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔برسوں پہلے جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کا ایک دور عروج پر تھا امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ پاکستان اب امداد کے چکروں میں پڑنے کی بجائے ٹیکس کا دائرہ بڑھائے اور اینٹی امریکن ازم پیدا نہ کرے ۔اس کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان بھارت کے ساتھ کھلی تجارت بحال کرے گا تو اس کی معیشت راکٹ کی رفتار سے اوپر جا سکتی ہے ۔اس جملے میں بھارت کی مسیحائی اور پاکستان کی معیشت کو بھارت کے ذریعے بحال کرنے کا تصور ہی پنہاں تھا۔اس کے بعد پاکستانی معیشت کا ہر قدم انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں نصب وینٹی لیٹر کی طرف بڑھتا چلا گیا ۔پاکستان کے معاشی منصوبہ سازوں نے ڈریکولا کے سانتا کلاز میں بدلنے کی اس سکیم کو اپنے اقدامات اور ناقص منصوبہ بندی سے آگے بڑھایا ہے ۔سر ی لنکا کے بعد پاکستان کے حالات بھی اس تاثر کو حقیقت میں بدلنے کے لئے کافی ہیں کہ چین ہمسایہ ملکوں کو اپنی قرضوں کے پنجرے میں قید کرنے والا اور بھارت ان قیدی پنچھیوں کو امداد دے کر اس قید سے نجات دلانے والا کردار ہے۔سارا معاملہ تاثر کا ہے حقیقت کیا ہے ان کی بلا سے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت