ملک کو دیوالیہ سے بچانے کا حکومتی مؤقف

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان نہ تو اپوزیشن کے کہنے سے دیوالیہ ہوگا اور نہ ہی ایسا کوئی خطرہ لاحق ہے، اس سے قبل اتحادی حکومت کے متعدد رہنما یہ مؤقف کئی بار دہرا چکے ہیں، سوال ہے کہ حکومت کو ہر کچھ عرصے کے بعد ایسی یقین دہانیوں کی نوبت کیوں پیش آتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ زبانی دعوؤں سے نہ تو عوام مطمئن ہوں گے اور نہ ہی اس سے افواہ سازی کا راستہ بند ہوگا، مہنگائی میں پسے عوام اس بات کے منتظر ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے حتمی اقدامات اٹھائے جائیں اور انہیں کوئی ریلیف دیا جائے، اس تناظر میں اگر حکومت کی طرف سے آئے روز صرف یہی کہا جائے گا کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے تو اس سے نہ تو عوام کو کوئی فائدہ پہنچنے والا ہے اور نہ ہی ان بیانات یا دعوؤں میں انہیںکوئی دلچسپی ہے۔
بلاشبہ حکومت کا یہ مؤقف درست ہے کہ دیوالیہ ہونے کی افواہیں پھیلانے سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے، اس سے عام آدمی میں بے چینی مزید بڑھتی ہے، سٹاک مارکیٹ گرتی ہے، سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے، دوسرے ممالک یا عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے حصول میں مشکلات پیش آتی ہیں اس لئے سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بالغ نظری کا مظاہر کریں، انہیں محض ذاتی سیاسی مفادات کے لئے ملکی معیشت کو داؤ پر نہیں لگانا چاہئے، حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا یقین بیانات سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے دلائے، اگر ملکی معیشت استحکام کی طرف گامزن ہو چکی ہے تو عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، حکومت کی طرف سے عملی اقدامات نظر آئیں گے تو اس سے افواہ سازی کا راستہ بھی بند ہو جائے گا۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس وقت گندم کی سمگلنگ کو جنگی بنیادوں پر روکنا ہوگا، اگر گندم کی سمگلنگ ہو رہی ہے تو اس سے آٹا بحران پیدا ہو سکتا ہے اور عوام کی مشکلات مزید بڑھیں گی، چنانچہ گندم کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے بلا تاخیر ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں، اس ضمن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار اہم ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر مؤثر حکمت عملی تشکیل دی جائے۔
قبائلی اضلاع کی ترقی کے اقدامات خوش آئند
وزیراعلیٰ محمود خان نے کہا ہے کہ نئے ضم شدہ اضلاع کے عوام کو قومی دھارے میں لانے اور ان کے طرز زندگی کو بہتر بنانے کے لیے نہ صرف جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں، اس ضمن میں انہوں نے صوبائی محکموں کو ضم اضلاع تک توسیع دینے اور خصوصی ترقیاتی پروگرام تشکیل دے کر ان اضلاع میں ترقی کا نیا دور شروع کرنے کا ذکر کیا۔ صوبائی حکومت کی طرف سے قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی اور عوام کا طرز زندگی بہتر بنانے کے لیے اٹھائے جانے والے ان اقدامات قابل تحسین تو ہیں مگر انہیں اس وقت تک تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک حقیقی معنوں میں ان پر عملدرآمد نہ ہو، بدقسمتی سے انضمام کو ایک عرصہ گزرنے کے باوجود قبائلی اضلاع میں تاحال بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جا سکی ہے، ہسپتالوں، سکولوں، ادارہ جاتی اور بنیادی ڈھانچے کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، بلکہ قبائلی اضلاع کے عوام کو ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے عوام کے مساوی حقوق دینے کا دعویٰ کیا گیا تھا، جو تاحال ایفا نہیں ہو سکا ہے، قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے وفاق کی طرف سے جو وعدے کئے گئے تھے وہ بھی پورے نہیں ہو سکے، صوبے کو شکوہ ہے کہ قبائلی اضلاع کی مد میں وفاق نے فنڈز جاری نہیں کئے ہیں، وفاق کو فنڈز جاری کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے تاکہ انضمام کا جو مقصد تھا، وہ حقیقی معنوں میں پورا ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!