چہچہاتے ہوئے پنچھی کواڑا دیتے ہیں

موضوع تو اور تھا جس پر آگے چل کر بات ہو سکتی ہے لیکن آپ نے اکثر کتابوں میں دیباچے دیکھے ہوں گے جن میں کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے اہل قلم کی آراء شامل ہوتی ہیں ‘ اس لئے آج کے کالم کے اصل موضوع پر آنے سے پہلے اس دیباچے پر بات کر لیتے ہیں جوتازہ اخبارات ملتے ہی خبروں کی صورت سامنے آگیا ہے ‘ اور اس دیباچے کواگر ماضی قریب کے ایک بیانئے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے ‘ یعنی سابقہ تحریک انصاف حکومت کے دوران وہ جوایک پیج کا بہت چرچا رہتا تھا اب اس کی صورتحال کیا ہے ؟ وہ پرانا پیج توکب کا پھٹ پھٹا چکا ہے اس کا کیا مذکور ‘ اب تو پارٹی کے اندر بھی کوئی پیج سلامت رہا نہ اس کی سلامتی کی مزید کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے ‘ اس حوالے سے دو تازہ بیانات کا حوالہ ہی وضاحت کے لئے کافی ہے ‘ مثلاً عمران خان نے جو بیان دیا ہے اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ ”جب تیاری ہو گی اسمبلیاں توڑ دیں گے”۔ دوسری جانب فواد چوہدری نے ایک بارپھرکہا ہے کہ ”20 دسمبر تک الیکشن کی تاریخ نہ ملی تو اسمبلیاں توڑ دیں گے’مگر عوام جانتے ہیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے ‘اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے خود تحریک انصاف کی صفوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کو خود پارٹی کے اندرونی عدم اتفاق نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے مشروط کر رکھا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا یہ عالم ہے کہ چوہدری خاندان تحریک کی قیادت کو ایک پشتو محاورے کے مطابق دریا کے دو کناروں کے کبھی ایک جانب اور کبھی دوسری جانب آنے جانے پر مجبور کر رہاہے ‘ بظاہر تو وہ عمران خان کا حکم ملتے ہی اسمبلی تحلیل کرنے کے بیانات جاری کرتا رہتا ہے لیکن واقفان حال چوہدری خاندان کی اس ”آنکھ مچولی” کو خوب جانتے ہیں۔ اس صورتحال پرحفیظ ہوشیارپوری کا تبصرہ ہی سامنے رکھ لیا جائے تو پرانے دور کے اخبارات ورسائل میں شائع ہونے والے ایک اشتہار کے ا لفاظ کہ اس کے پڑھنے سے بہتوں کا بھلا ہوگا یاد آجاتے ہیں ‘ یعنی
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگرکچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور ایک خبر نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کی جو گزشتہ روز کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی ‘ خبر یہ تھی کہ حافظ حسین احمد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات کے بعد دوبارہ جمعیت میں غیر مشروط طور پرشامل ہو گئے ہیں ‘ یقین جانیں اس خبرسے ہمیں بہت خوشی ہوئی ‘ اس لئے نہیں کہ ہمارا جمعیت سے کوئی تعلق ہے بلکہ ہمارا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ہم تو ایک قلم گھسیٹ صحافی ‘ کالم نگار ہیں ‘ تو پھر سوال تویقینا اٹھتا ہے کہ ہمیں خوشی کیوں ہوئی؟ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ حافظ صاحب سیاسی بذلہ سنجی میں ید طویٰ رکھتے ہیں اور وہ حالات حاضرہ پر اتنے خوبصورت ‘ دل خوش کن تبصرے کرتے تھے کہ ہمیں کالم کے موضوعات تلاش کرنے میں آسانی ہوتی تھی ‘ یعنی وہ جو محاورہ ہے کہ اندھا کیا چاہے’ دو آنکھیں ‘ تو ہماری خواہش بھی یہی رہتی ہے کہ ملکی سیاست میں سیاسی حالات کے تناظر میں دلچسپ تبصرہ آرائی چلتی رہے اور ہم ان پرحاشیہ آرائی کرتے رہیں ‘ بد قسمتی سے مگر جب سے حافظ حسین احمد اور ان کے دیگر تین دوستوں نے جمعیت سے علیحدگی اختیار کی تھی ‘ ان کی جانب سے کبھی کبھار جوتبصرے سامنے آتے رہے ‘ ان میں زیادہ تر خود ان کی اپنی جماعت یعنی جمعیت علمائے اسلام پر ”تبرہ” ہوتا تھا لیکن جس سیاسی بذلہ سجی کی ان سے توقع ہوتی تھی وہ ناپید ہو گئی تھی ‘ اب اس کی ذمہ داری کس پرعاید ہوتی ہے کہ بقول مرحوم فارغ بخاری
چہچہاتے ہوئے پنچھی تو اڑا دیتے ہیں
کسی سر میں کوئی سودا نہیں رہنے دیتے
خدا جانے وہ کیا حالات تھے اور کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے جمعیت سے حافظ صاحب کی نہ صرف علیحدگی ہوئی بلکہ ان کے اندر کا وہ چہچہاتا پرندہ خاموش خاموش سا ہو گیا تھا ‘ جن کے تبصرے نہ صرف پارلیمنٹ ‘ بلکہ مختلف چینلز پر سامنے آتے تو قہقہوں کاطوفان اٹھتا ‘ اور ان کی گونج دیر تک سنائی دیتی ۔ اب ان کی جمعیت میں واپسی سے خود ان کی پارٹی کے اندر صورتحال کیا ہوگی تاہم لگتا ہے کہ وہاں استاد ابراہیم ذوق کے بقول یوں تبصرہ آرائی ہو رہی ہو گی
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
اس صورتحال پر ہم بہر طور یہ تبصرہ کرنے کی جرأت ہر گز نہیں کر سکتے کہ
اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار
ایک شخص آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
ہم تو حافظ صاحب کی پارٹی سے علیحدگی کے بعد کچھ ا ور سیاسی بذلہ سنجوں پر بہ امر مجبوری گزارہ کرتے رہے ‘ یعنی منظور وسان جو اکثر خواب دیکھ کر بڑے دلچسپ تبصرے فرما دیتے ہیں اور کسی کے عروج اور کسی کے زوال کی پیشگوئی کر دیتے ہیں ‘ ان کے خوابوں کو رویائے صادقہ قرار نہیں دیا جا سکتا اس لئے کہ کبھی کبھی ان کی پیشگوئیاں درست ثابت نہیں ہوتی تھیں’ پھر بھی چند لمحوں کے لئے سیاسی ارتعاش کاباعث ضرور بن جاتی تھیں ‘ ان کے علاوہ سیاسی بذلہ سنجی کے حوالے سے سردار اسلم رئیسانی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ‘ وہی جنہوں نے ڈگری توڈگری ہوتی ہے ‘ خواہ اصلی ہو یا نقلی جیسے لازوال جملے سے سیاست کے میدان میں اپنا مقام متعین کیا ہے اب تو وہ بھی خیرسے جمعیت علمائے اسلام کو پیارے ہوگئے ہیں ‘ سو خوب گزرے گی جومل بیٹھیں گے ”فرزانے” دو یعنی وہ جو آج سے لگ بھگ ساٹھ پینسٹھ سال پہلے ریڈیوپاکستان پشاور کا ایک مقبول پشتو پروگرام”د حق آواز ‘ دبیدارئی اعلان” کے نام سے دو آوازوں میں نشر ہوتاتھا ‘ اب یہ دونوں یہ سردار اسلم رئیسانی اور حافظ حسین احمد مل کر سیاسی تبصرے کریں گے تو صورتحال کیا ہو گی؟ بقول مہاراج بہادر برق
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر !!!کم ازکم لیکن آخری نہیں