انسانی حقوق کا عالمی دن

ہر سال پوری دنیا میں لوگ 10دسمبر کے دن کویوم حقوق انسانی کے طور پر مناتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے1948 میں اسی دن حقوق انسانی کے آفاقی اعلامیہ کو اپنی قرارداد کے ذریعہ منظور کیا ۔اس قرارداد کے مطابق دنیا بھر کے انسانوں کو جینے کا حق، اپنے فکر کے اظہار کی آزادی ، سماجی تحفظ ،روزگار ،تعلیم ، صحت اور دیگر معاشی و ثقافتی حقوق بلا امتیاز برابری کی سطح پر فراہم کرنا ضروری ہے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد اور تمام ممالک میں انسانی حقوق کی وکالت کے باوجود المیہ یہ ہے کہ آج بھی دنیا کے بیش تر ممالک میں کہیں رنگ و نسل کے نام پر، کہیں ذات پات کے نام پر، تو کہیں مذہب کے نام پر انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں اور انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔ہر سال یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے ،جہاں کئی سیاسی جماعتیں ، دانشور اور حقوق انسانی کی بہت سی تنظیمیں پیش پیش رہتی ہیں ۔ ہر سطح پر تقریب ،اجتماع اور کہیں کہیں احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اسی دن ہم سب انسانی حقوق کے بڑے علمبردار بن کر نمایاں رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انسانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور جبر کی مذمت تو کرتے ہیں مگر اپنے قانون پر عمل درآمد کروانے میں اقوام متحدہ کا کردار کمزور ہے۔
دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے حقوق انسانی کی بنیاد رکھی جو بنی نوع انسان کے احترام اور باہمی مساوات پر مبنی ہے۔ قران کریم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور اللہ ربّ العزت نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا فرمائی۔ اسلام نے تمام نوع انسانی میں رنگ و نسل، زبان اور قومیت کے حوالے سے کوئی فرق نہیں رکھا بلکہ یہ حق انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے کہ اس کے ساتھ رنگ ،پیدائش اور اس کو جنم دینے والی نسل و قوم کی بنا پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ پیغمبرآخر الزمانۖ نے حجتہ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا ،وہ خطبہ حقوقِ انسانی کا اولین اور ابدی منشور ہے جو کسی وقتی سیاسی مصلحت یا عارضی مقصد کے حصول کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح کے لئے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خطبہ حجة الوداع کو حقوق انسانی سے متعلق دیگر تمام دستاویزات پر فوقیت اور اولیت حاصل ہے۔ اسلام نے انسان کو جان، مال ،اولاد ، عزت و آبرو ، روزگار اور عقیدہ و مذہب کے تحفظ جیسے حقوق فراہم کیے ہیں ۔ یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جن کے ذریعہ ہر انسان معاشرہ میں پرامن زندگی گزارسکتا ہےـاسلام کے دیے ہوئے حقوق میں سے ایک ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے۔ قران میں ارشاد ہے کہ اللہ کو برائی کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں ہے سوائے اس شخص کے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔اس سے واضح ہوا کہ اللہ برائی پر زبان کھولنے کو سخت ناپسند کرتا ہے لیکن جس شخص پر ظلم کیا گیا ہو، اس کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ علی الاعلان ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔آج ظلم و جبرکے خلاف اُٹھنے والی آوازخاموش کر دی جاتی ہے اور طاقت ور ایسی کسی قرارداد کی پرواہ نہیں کرتا جس میں انسانی جان کے احترام کی ضمانت موجود ہے۔ اسلام کی رحمت و شفقت کا دائرہ کسی خاص طبقہ اور کسی خاص قوم تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت تک وسیع ہے ۔اُس نے ساری مخلوق کو خدا کا کنبہ مانا ہے اور تمام مخلوق کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا حکم دیا ہے ۔ہر انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ رحم و کرم کی تعلیم دی ہے، جو انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے وہ رحمت خداوندی کا مستحق نہیں۔ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے دوسرے مظلوم طبقوں کے علاوہ غلاموں کے ساتھ بھی انسانیت اور حسن سلوک کا سبق دیااور اُنہیں انسانی حقوق عطا کیے ۔ اسی طرح عورتوں کا درجہ بلند کیا۔ اسلام سے پہلے عورت کی کوئی ذاتی حیثیت نہ تھی وہ مرد کی محکوم اور دست نگر تھی ۔ اسلام نے عورت کے حقوق متعین کیے ، وراثت میں حصہ دار اور املاک میں اُن کو مالک بنایا۔
اسلام سے پہلے خدا کی مخلوق رنگ و نسل ، حسب و نسب اور پیشوں کے اعتبار سے ادنیٰ اور اعلیٰ طبقوں میں بٹی ہوئی تھی۔دنیا کے تمام قدیم تہذیبی مرکزوں میں یہی حال تھا جس کی تصویر تاریخ کے آئینہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ سترہویں صدی کے بعد بھی ایک مدت تک مغرب میں انسانی حقوق کا کوئی تصور موجود نہ تھا، فلسفی ضرور اس کا خیال پیش کرتے رہے مگرعملاً اس تصور کا ثبوت اٹھارہویں صدی کے بعد امریکہ اور فرانس کے دستوروں اور اعلانات ہی میں ملتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ارباب عقل ودانش اور اصحاب فکرونظر کو انسان کی مظلومیت کا احساس ہوا تو اس وقت پہلی مرتبہ انسانی حقوق کے تعین اور اس کی تدوین سے متعلق آواز اُٹھائی گئی اور اسلامی نظام کو بنیاد بناکر انسانی حقوق مقرر کئے گئے۔ہم سمجھتے ہیں کہ توحید کا لازمی نتیجہ انسانی عظمت و شرف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس انسانی عظمت و شرف اور انسانی حقوق کا ذکر ہی صرف ایک دن تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جبکہ سال کے باقی ایام ہم عملاً اس سے غافل رہتے ہیں ۔اپنے مُلک میں جب ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسان پر ظلم ہوتا دیکھتے ہیں تو ساتھ ہی وہ لوگ بھی جھوٹ و فریب میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں جو یہی ایک دن انسانی حقوق کی باتیں کرنے اور سننے میں گزار دیتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  پاکستان ہاکی ،غیر معمولی واپسی