مشرقیات

عمار خان ناصر گوجرانوالہ کے درس وتدریس سے وابستہ ایک نیک نام خاند ان کے چشم وچراغ ہیں ان کے والد گرامی مولانا زاہدالراشدی جس طرح اجا لا بکھیر رہے ہیں ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عمار خان ناصربھی چراغ سے چراغ جلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اس سلسلے میں حال ہی انہوںنے بغیر نکاح کے مسلم معاشرے میں رہنے والے جوڑوں کے سماجی مسئلے سے نمٹنے کے لیے چند تجاویز دی ہیں۔
”بدلتے ہوئے سماجی حالات میں، جائز اور مشروع جنسی تعلق کو ممکن اور آسان بنانے کے لیے ہماری رائے میں جو چند اہم اقدامات مناسب حکمت عملی اور تدریج کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے، وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ نکاح کے فیصلے کو روایتی خاندانی نظام کی عائد کردہ قیود اور قدغنوں سے آزاد کروانے کے لیے سازگار ماحول بنایا جائے جس میں والدین کا کردار اسٹیک ہولڈر کے طور پر کم اور سہولت کار کے طور پر زیادہ ہو۔ ان کے کردار کی نوعیت وہی ہونی چاہیے جومثال کے طور پر بچوں کو اعلی تعلیم کی فراہمی کے ضمن میں ہوتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں نکاح کے ساتھ جڑے ہوئے بھاری اور ناقابل تحمل اخراجات کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ خاندانی معاشرت اور رسم ورواج نے اس وقت جو شکل اختیار کر لی ہے، اس کے ہوتے ہوئے آسان نکاح اور سادگی کی ترغیب وتلقین کا موثر ہونا کم وبیش ناممکن ہو چکا ہے۔
2۔ ہائر ایجوکیشن کے مرحلے میں داخل ہونے پر بچوں کے لیے،رخصتی اور باقاعدہ خاندانی ذمہ داریوں کی ابتدا سے پہلے، عبوری مرحلے میں نکاح اور جسمانی تعلق قائم کرنے کو قابل قبول بنایا جائے۔ اگر دونوں میں سے کسی کے والدین مالی لحاظ سے اسی مرحلے میں رخصتی اور ماہانہ خرچ کی فراہمی کا تحمل کر سکیں تو بہتر، ورنہ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے تک، جوڑے کو باقاعدہ رخصتی کے بغیر میاں بیوی کی طرح ملنے جلنے اور جسمانی تعلق کی اجازت دی جائے۔
3۔ ایسے جوڑوں کو اگر خاندان کی طرف سے مشکلات درپیش ہوں تو حکومت کی طرف سے نکاح کے لیے مناسب وظیفہ اور رہائش کا بندوبست کیا جائے اور انھیں مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔
4۔ ایسے رشتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جن میں میاں بیوی الگ الگ ملکوں یا دور دراز علاقوں میں رہنے پر مجبور ہوں اور معمول کی خانگی زندگی سے محروم ہوں۔ اس کے بجائے کاروبار یا ملازمت پیشہ افراد کو وہ جہاں ہوں، وہیں کسی مقامی شخص سے نکاح کی ترغیب دی جائے۔ اس میں نکاح بہ نیت فرقت کی فقہی اجازت سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جس میں فریقین یہ باہمی مفاہمت کر سکتے ہیں کہ یہ رشتہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ کے لیے قائم رکھا جائے۔
5۔ جو خواتین خود کفیل ہیں، ان کے لیے اپنے گھر میں خود کفالت کے ساتھ رہتے ہوئے، رخصتی اور نفقہ وسکنی کی شرائط کو باہمی مفاہمت سے ختم کر کے، نکاح کرنا قابل قبول بنایا جائے۔ اسی ضمن میں، تعدد ازواج کی رخصت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ جن خواتین کے لیے کسی وجہ سے انفرادی رشتے کا حصول مشکل ہے، وہ نکاح کی سہولت سے محروم نہ رہیں۔

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش