اسمبلیاں تو ڑنا یا کمیلا کر نا

آئین میں کہیں نہیں لکھا ہو ا ہے کہ حکومت اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرے گی ، آئین کے مطا بق اسمبلیو ں کی مدت پانچ سال ہے اگر کوئی اسمبلی تو ڑ تا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے آئین سے روگردانی کی ہے ، صدرایوب خان سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک جس جس نے اسمبلیاں توڑی ہیں وہ سب بنیا دی طور پر آئین کی خلا ف ورزی کے مر تکب ہوئے ہیں ، کیوںکہ اسمبلی توڑ نے کا اختیار کسی کے پا س نہیں ہے البتہ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی طرف جانے کا ایک آئینی طریقہ کا ر موجو د ہے اور اس کے لیے جو ا ز کا بھی ہو نا ضروری ہے ، تاہم اگر کوئی لیڈر یہ خواہش رکھے کہ اسمبلی توڑ دی جائے تو فرد واحد کی خواہش کو آئین پاکستان پورانہیں کرتا ، چنا نچہ ماضی میں جتنے ڈکیٹر قابض ہوئے انھو ں نے کسی کی حکومت کو ختم نہیںکیا بلکہ انھوں نے اسمبلیو ں کو ان کی مدت پوری ہو نے قبل توڑ دیا جس کے نتیجے میں حکومت از خود ختم ہوگئی ، پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کی حکومت کاجوخاتمہ کیا وہ عین آئینی طریقہ کا ر کے مطا بق کیا ،یہ ارکا ن اسمبلی کا حق ہے کہ اگر وہ حکومت سے مطمئین نہیں ہیں تو اس کے خلا ف آئین کے مطا بق عدم اعتما د کی تحریک پیش کرے اگر تحریک کا میا ب ہو جا ئے تو ٹھیک نہ ہو تو بھی ٹھیک ۔پی ٹی آئی 2014ء سے اس سیاسی ڈگر پررواں ہے کہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دو اور تما شا دیکھو چنا نچہ کپتا ن اپنی کسی تحریک کی نا کا می پر نیا بیانیہ تلا ش کرلیتے ہیں پھر قوم کو اس کی بتی کے پیچھے لگا دیا کرتے ہیں دھر نا سیا ست سے اسمبلیاں تو ڑنے تک ان کا یہ ہی وتیرہ چلا آرہا ہے ، 26فروری کا ان کی حقیقی آزادی کا طولانی ما رچ نا کام ہو نے کی صورت میں انھیں ایک نیا بیانیہ ٹرک کی بتی کو روشن رکھنے کے لیے چاہیے تو سو انھو ں نے یہ کہہ کر ایک انتہائی اہم قدم اٹھانے کا اعلا ن بناء سوچے سمجھے کر دیا کہ وہ موجو دہ نظام کا حصہ نہیں رہنا چاہتے چنانچہ صوبائی اسمبلیوں سے نکل رہے ہیں ، جس وقت خان صاحب نے یہ اعلان کیا تھا اسی لمحہ صافی مفکر قلقلا خا ن نے کہہ دیا تھا کہ اس بیانیہ پر بھی خان غیر سنجید ہ ہیں ، اگر سنجیدہ ہوتے تو وہ پہلے اپنی پا رٹی سے مشاورت کر تے ، اپنے اتحادیو ں خاص کر مسلم لیگ ق وغیر ہ کو اعتما د میں لیتے پھر اتنے بڑے قدم کے بارے میں اعلا ن کر تے ،کیا خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سبھی درباری ہیں جو ان کے ہر حرف پر واہ واہ کرنے لگیں گے ، چنانچہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہی کے صاحبزادے مونس الہی نے بھی غیر سنجید ہ اعلا ن کا جو اب بھی غیر سنجید ہ دے دیا ، انھو ں نے ارشاد فرمایا کہ جب خان اشارہ کریں گے لمحہ لگا ئے بغیر اسمبلی توڑ دیں گے ، پھر باپ نے بھی بیٹے کی پیر وی کی ، لیکن جب کہ اشارہ ہو گیا ہے اس کے باوجو د پنجا ب اسمبلی تو ڑ نے کا دور دور تک کوئی تا ر ہلتا ہو ا نظر نہیں آرہا ہے ، اب تو پی ٹی آئی کے رہنما ء بھی تسلیم کر نے لگے ہیں کہ اسمبلی توڑ نے کے سوال پر پارٹی میںاختلا ف رائے پایا جا تا ہے ، ” اپنے کپتان پر قربان ہونے کا دعویٰ کر نے والے اب کیو ں قربان ہونے سے انکا ری ہیں ” روزایک ہی بیانیہ آرہا ہے کہ اسمبلیا ں تو ڑ دی جائیں گی ، اسمبلی توڑ نے کا سار ا زور پنجا ب اسمبلی پر آرہا ہے اور یہ محسو س کیا جا رہا ہے کہ آپس میں بھی اور اتحادیو ں کے ساتھ بھی بد اعتما دی کی فضاء پید اہو گئی ہے جو یہ سار ا کھیل کسی ٹھکا نے نہیں پہنچ پا رہا ہے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ جب پی ٹی آئی برسراقتدار تھی تب اس نے نظام کیوں نہیں بدلا ، انھو ں نے تو تما م عرصہ اپنے سیا سی حلیفوں سے منتقم مزاجی کی خاص طو پر مسلم لیگ ن سے تو بہت گہری کی گئی ، سارا عرصہ اقتدا ر اسی اُدھیڑبُن میں گزار دیا ، قوم کو کھکھ نہ دیا، یہا ں ایک اور سوال ہے کہ سارا زور کے پی کے اور پنجا ب اسمبلی پر کیو ں ڈالا جا رہا ہے ، اس وقت پاکستان میں کپتان کی حکومت پنجا ب اور کے پی کے علا وہ کشمیر ، گلگت وبلتستان میں بھی ہے، اگر دیکھاجائے تو خان پاکستا ن کے ستر پچھتر فی صد علا قے کے حکمر ان ہیں ، کیا کشمیر اور بلتستان و گلگت میں خان اس نظام کا حصہ رہنا چاہتے ہیں جس سے وہ پا کستان کے باقی حصوں سے نکلنے کی ڈگڈگی بجا رہے ہیں ۔ ان کے بارے میں کیو ں اعلا ن نہیں فرما رہے ہیں یا وہ پاکستان سے ملحق نہیں ہیں ، یہ بات بھی صاف ہو نا چاہیے ، خان جس طر ح ماضی میں کئی کئی مہینے ایک بیانیے پر کا ٹ جایا کرتے تھے اور نا کا می صورت میں نیا بیانیہ تراش لیا کرتے تھے بقول قلقلا خان کے اب بھی نئے بیانیہ کی تلا ش ہوشروع ہوگئی ہے ، مزے کی بات یہ ہے کہ شاہ محمو د قریشی ، اسد عمراور پر ویز خٹک کا بیانیہ یکساں طرز کاہے جب کہ فوادچودھر ی اور کچھ ساتھیوںکا بیانیہ یہ ہی ہے کہ ق لیگ کچھ بھی فیصلہ کر ے خان 20دسمبر کو اسمبلیا ں تو ڑ دینے کا اعلا ن کردیں گے ، پر ویز الہی کی ایک بات تو سچ ہے کہ اگر پنجا ب اسمبلی خان کے اشارہ پر فوری تو ڑ دی گئی تو اس کا خسارہ خان کا ہی ہو گا کیو ں کہ پنجا ب نے ان کو گرفتاری سے بچنے کے لیے ٹھکا نا دیا ہوا ہے یہ ہی وجہ جیسے پہلے وہ کے پی کے میں کئی ما ہ رہے تاکہ گرفتاری سے بچے رہیں اب وہ لا ہو ر میں اسی غرض سے مقیم ہیں ، گمان یہ تھا کہ 26دسمبر کو مو صوف راولپنڈی آئے ہیں تو وہ واپس لاہو ر پدھارنے کی بجائے بنی گالہ کی یا ترا کو چلے جائیں گے مگر زخموں کی تڑپ کے باوجو د وہ واپس لاہو رہی پلٹے ، اب مسلم لیگ ق انھیںبتارہی ہے کہ اگر پنجا ب اسمبلی تو ڑ دی گئی تو پنجاب میں مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کی مخلو ط حکومت نہ رہے گی اور بنی گلہ میں ان کی حفاظت کا جو حصار ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا اب تو پولیس کا بڑے سے بڑافسر ان کو گرفتارکرنے کی ہمت نہیںرکھتا پھر ایک تھانید ار یہ عمل کر نے کی سکت پا لے گا تب پھر کاہو گا ، خیر اب یہ تجو یز آئی ہے کہ پہلے پنجاب اسمبلی توڑی جائے گی اور ہر رکن اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو کر اسپیکر کے سامنے اعلان کرے گا کہ وہ اسمبلی کی رکنیت سے دستبردار ہو گیا ، بعد ازاں کے پی کے کی اسمبلی تو ڑنے کااعلا ن کیا جا ئے گا ، پنجاب اسمبلی کو پہلے نمبر پر کیو ںلیا جا رہا ہے ، ذرائع کہہ رہے ہیں کہ ہنو ز مسلم لیگ(ق) خان کے لیے قابل اعتبار نہیں ٹھہر پائی ہے چنانچہ اگر کے پی کے کا فیصلہ کر دیا گیا اور اور ق لیگ جاکر مسلم لیگ ن کی گو د میں بیٹھ گئی تو ساری سیا ست ٹھٹھرا جا ئے گی ،ایک اطلا ع یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میںبھی جا کر فرداًفردا ًپی ٹی آئی کے ارکان یہ ایسا ہی اعلا ن کریں گے ، جس کے بعد اسپیکر کے سامنے جا کر تصدیق کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی ، لیکن کچھ ارکا ن کا یہ بھی مئوقف ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میںجا کر مثبت پارلیما نی سیا ست کو روبہ عمل لائے ، بہرحال ہے یہ خبر یں گردش کررہی ہیں کہ جنرل فیض حمید نے عملا ًپی ٹی آئی کی سیا سی قیا دت کو اپنے ہا تھ میںلے لیا ہے ، چوں کہ وہ قانو ن کے مطابق ملا زمت سے ریٹائر منٹ کے بعد دوسال تک سیا ست میں عیاں نہیںہو سکتے چنا نچہ جس طر ح وہ سروس کے دوران محجوب رہ کر سیاست کھیل رہے تھے اب بھی دوسال تک یہ کھیلیں گے ۔

مزید پڑھیں:  خود کردہ راعلا ج نیست