چینی صدر کا دورہ سعودی عرب، ہمارے لئے امکانات

امریکی سیکرٹری دفاع لائڈ آسٹن نے3دسمبر کو ریگن ڈیفنس فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا ایشیا پیسیفک ریجن میں زیادہ طاقتور پوزیشن لے گا۔ چین کو اس خطے میں وہ برتری حاصل کرنے سے روکے گا جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جو ارادہ اور طاقت دونوں رکھتا ہے۔ وہ اپنے خطے اور عالمی نظام کو اپنی آمرانہ ترجیحات کے مطابق بدلنا چاہتا ہے۔ تو میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ ہم ہونے نہیں دیں گے۔ امریکی صرف باتیں ہی نہیں کر رہے، وہ چین کو مختلف طریقوں سے دبا بھی رہے ہیں۔ امریکی اپنی صنعتی سپلائی چین کی ری اسٹرکچرنگ کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ چینی کمپنیوں کو مقابلے سے باہر بھی کر رہے ہیں، ہواوے، ذیڈ ٹی ای اور دوسری بڑی چینی کمپنیوں سے خریداری بند کر رہے ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر چینی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے پر بھی پابندیاں لگا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ساری دنیا کی معیشت اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ اگر ہم امریکی سیکریٹری دفاع کے الفاظ سے ہی مدد لیں تو امریکا چین کی طاقت میں کمی پر توجہ دے رہا ہے تاکہ اگر وہ خطے اور عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش کرے بھی تو اس میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو۔
چینی صدر کے اس دورے میں30ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے ہیں۔ میڈیا زیادہ تر اس دورے پر امریکا کے حوالے سے ہی بحث کرتا رہا۔ امریکی صدر بائیڈن کے دورے سے بھی پہلے سعودی اس دورے کی تیاری کر رہے تھے۔ دورے کے دوران گرین انرجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹیشن، کلاڈ سروس، میڈیکل انڈسٹری، لاجسٹک، کنسٹرکشن اور ہاسنگ پر معاہدے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند سال میں چین سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔ سرمایہ کاری کے یہ سارے منصوبے کامیاب رہے ہیں جبکہ موازنہ اگر ایران سے کیا جائے تو وہاں اعلان بہت ہوئے ہیں اور کامیابی کچھ بھی نہیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود چین سعودی تعلقات کی کچھ محدودات ہیں۔ امریکا اپنی خلیج پالیسی کو سعودی اینگل سے دیکھتا ہے۔ سال2003 سے2021کے دوران امریکا نے سعودیوں کو17ارب85کروڑ ڈالر کا اسلحہ بیچا ہے جبکہ چین نے24کروڑ 50لاکھ ڈالر کا۔ یہ سب آپ دی ڈپلومیٹ کی ایک رپورٹ میں پڑھ سکتے ہیں۔
اس دورے کے دوران چین کو توانائی کی فروخت چینی کرنسی میں کرنے کی بات سامنے آئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈالر کی طاقت کم کرکے سب کو اور خود کو ایک ریلیف فراہم کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ چین اپنی ضرورت کا18فیصد تیل سعودیہ سے خریدتا ہے جبکہ سعودی اپنی پیداوار کا25فیصد تیل چین کو برآمد کرتے ہیں۔ یہ لین دین ڈالر سے آزاد کیا گیا تو ایک بڑی پیشرفت ہوگی جو ڈالر کی طاقت کو یقینی طور پر کم کرے گی۔
سعودی چینی تعلقات کو اب اپنے اینگل سے دیکھتے ہیں۔ ان دونوں کو جن حالات نے اکٹھا کیا ہے، ہم پاکستانی ان حالات کے متاثرین ہیں۔ یہ دونوں ملک ہمارے ریسکیو سنٹر بھی ہیں۔ امریکا یہ حالات پیدا کرکے اپنی پوزیشن مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ چینی سعودی اب اپنے لیے نئے امکانات دیکھ رہے ہیں، جو ان کو معاشی طور پر مستحکم کرسکیں۔ امریکی بھی معیشت کو بطور پریشر ٹول ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے ان امکانات میں اپنا فائدہ ڈھونڈنا ہے۔ ہماری ضرورت سب کو ہے۔ ہم ہوتے کام بگاڑنے کے ماہر ہیں۔ اس وقت ملک پر الحمدللہ حکومت بھی کرپٹوں کی ہے۔ یہ قول ہمارے کپتان کا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ لوگ پیسے کمائی کے سیانے ہیں۔ تو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا فائدے حاصل کر پاتے ہیں جبکہ اس وقت عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہم عوام سے زیادہ خود حکومتی اتحاد کی ہے کہ وہ لوگوں کو کوئی فائدہ دیں تاکہ الیکشن تک پہنچیں اور بعد میں بھی اقتدار باقی رہے۔

مزید پڑھیں:  پانی کے ضیاع پر افسوسناک خاموشی