امن و امان

امن و امان کیلئے اداروں کی سرپرستی سیاسی ایجنڈے سے غائب

ویب ڈیسک: سیاسی گہما گہمی اور غیر ضروری ترجیحات کے نتیجہ میں سیاسی جماعتوں کی توجہ امن و امان سے متعلق صورتحال سے ہٹ گئی ہے۔ اس وقت سکیورٹی اداروں کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے لیکن ان کی پشت پر کسی قسم کی سیاسی حمایت اور سرپرستی نہیں جس کے نتیجے میں حالات تذبذب کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اے پی ایس پر حملے کے تناظر میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں کارروائیاں کرتے ہوئے سکیورٹی اداروں نے امن و امان قائم کیا اس پلان کے پیچھے اس وقت کی مرکزی حکومت تھی جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی سکیورٹی اداروں کی پشت پر صوبائی حکومت کھڑی تھی اور ہر قسم کے دفاعی حالات کی ذمہ داری سیاسی طور پر لی جارہی تھی لیکن ملک میں2018کے بعد کی سیاسی ہنگامہ آرائی اور بدلتے سیاسی حالات کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد سست پڑگیا اور اس دوران سیاسی جماعتیں اس ذمہ داری کیلئے سامنے نہیں آئیں اور تاحال کسی بھی جانب سے اداروں کے اقدامات کی سرپرستی نہیں کی جارہی ہے سیاسی طور پر ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے نیشنل ایکشن پلان کی حمایت کی ہے اور ماضی قریب میں اداروں کو اپنے سیاسی فیصلوں سے سپورٹ کیا ہے
لیکن جے یو آئی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا دہشت گردی کے حوالے سے بیانیہ مختلف چلا آرہا ہے۔ مذکورہ جماعتوں کی جانب سے اس موضوع پر کھلے عام لب کشائی سے اجتناب برتا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس اہم مسئلے پر سیاسی طور پر تقسیم ہے ایک عرصہ تک امن و امان کی وجہ سے خیبر پختونخوا حکومت کی ترجیحات بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد سے ہٹ گئی تھیں۔ گذشتہ چار سالہ مدت کے دوران کسی بھی صوبائی سرکاری فورم سے امن و امان کے قیام اور بیرونی حملہ آوروں کی روک تھام سے متعلق ٹھوس اور دیرپا پالیسی سامنے نہیں آئی ہے ۔ دفاع اور فیصلہ سازی کی تمام تر ذمہ داری ناتواں پولیس اور دیگر اداروں کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے اور ان اداروں کو سیاسی طورپر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے