نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو

خبر ہے کہ اب کی بار یونیورسٹی روڈ ‘ خیبر روڈ اور پشاور صدرکی جانب سے جانے والی سڑکیں جام ہوگئی ہیں حالانکہ ان سڑکوں پر ٹریفک جام کاجو عمومی کارن ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے پورا شہر جام ہو کر رہ جاتا ہے اب کی بارایسی کوئی بات نہیں ہے’ یعنی ہوتا یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ‘ مذہبی گروہ ‘سرکاری ملازمین’ عام شہری کسی مسئلے پراحتجاج کاڈول ڈالتے ہیں تو وہ پشاور ٹریفک کے سب سے بڑے”ہب” یعنی سورے پل پردھرنا دے دیتے ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ آدھ پون گھنٹے میںپورے پشاور کا ٹریفک نظام جام ہوکر رہ جاتا ہے ‘ لیکن اب کی بارایسا کسی احتجاج کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ شہر کے اطراف کی خواتین نے یونیورسٹی روڈ کے شاپنگ مالز پر ”ٹوٹ پڑنے” کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے ان شاپنگ مالز میں لگی بمپر کلیئرنس سیل سے بھر پور استفادہ کیا’ اور اتنی بڑی تعداد میںخواتین اپنے پورے پورے خاندان سمیت ( ایم بی بی ایس) بننے کی راہ اپنائی(ایم بی بی ایس سے مراد کسی ڈاکٹرکی جانب اشارہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے میاں ‘ بیوی بچوںسمیت) ۔ اب ظاہر ہے جب پورے پورے گھرانے گھروں سے نکل کرشاپنگ مالز پرٹوٹ پڑیں گے تویونیورسٹی روڈ کا جوبی آرٹی کی وجہ سے پہلے ہی قدرے تنگ ہوچکی ہے ‘ گاڑیوں کے اژدھام اور بندوں کے رش کی وجہ سے مزید سکڑنا لازمی تھا ‘ اور جب یہ صورتحال بن جائے توآگے پیچھے یعنی دونوں سمتوں سے آنے جانے والی ٹریفک نے کیا صورت اختیار کر لی ہو گی ‘ حالانکہ یہاں پر ہم نے آنے جانے والی سڑک کاجو صیغہ استعمال کیا ہے اس پرایک دلچسپ مکالمہ یوں بھی ہے کہ کسی نے سامنے آنے والے سے پوچھا ‘ بھائی یہ سڑک کدھر کو جارہی ہے؟ تواسے جواب ملا ‘ جناب سڑک تو یہیں ہے جا توکہیں نہیں رہی اسی طرح پی ٹی وی کے ایک بہت پرانے پروگرام میں ایک بار انور مقصود نے کرداروں سے مزاحیہ مشاعرہ کروایا تھا جس میں ایک شعر نے خوب دھوم مچائی تھی کہ
کیا وہ سڑک ہوئی تمام؟ ہاں وہ سڑک ہوئی تمام
کیاوہ ٹرک گزر گئے؟ہاں وہ ٹرک گزر گئے
اب یہ جوٹریفک جام بمپر کلیرنس سیل نے دھوم مچائی ہے تواس نے ہمیں مغرب اوربعض خلیجی ممالک میں ہونے والی کلیئرنس سیل کی جانب متوجہ کردیا ہے’یہ الگ بات ہے کہ وہاں ایسے مواقع پرکبھی ٹریفک جام کا مسئلہ درپیش نہیں آیا ‘مجھے یاد ہے ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران ریڈیو ڈرامے کی ٹریننگ کیلئے مجھے جرمنی جانا پڑاتھا یہ اکتوبراورنومبر کے دنوں کی بات تھی ‘ مغربی ممالک میں ان دنوں کرسمس کی بھرپورتیاریوں میں لوگ مصروف بلکہ بہت ہی سرگرم ہوتے ہیں۔ ان مواقع پر معاشرے کے متوسط اور غریب طبقوں کو بھی کرسمس کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لئے ضروریات زندگی خصوصاً لباس ‘ پہناوے ‘ ڈیکوریشن وغیرہ کی اشیاء پردودوبارہ کلیرنس سیل لگائی جاتی ہے دراصل یہ وہ دن بھی ہوتے ہیں جب سردی گزرنے کے بعد موسم انگڑائی لیتاہے اور پھر ان تمام شاپنگ مالز کواپنی اشیاء اونے پونے فروخت کرکے آنے والے گرم موسم کے لئے مصنوعات فروخت کرنا ہوتی ہیں یعنی اگر سردی کے دنوں کے ملبوسات وغیرہ سردیوں کے اختتام سے پہلے فروخت نہ کی جا سکیں توآنے والے سٹاک کے لئے ان کے پاس جگہ ہی نہیں ہوتی ‘ اس لئے ہر سٹور ‘ ہر پلازہ پر کلیرنس سیل کے بینرزآویزاں ہوجاتے ہیں اور ضرورتمند وہاں سے نہایت کم قیمت پر یہ چیزیں خرید لاتے ہیں ‘ عموماً کلیرنس سیل 15 دن یا زیادہ سے زیادہ ایک مہینے تک (سٹاک ختم ہونے تک) جاری رہتی ہے ‘ لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ سٹاک اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ سیل کی مدت کے آخر تک مکمل طور پر فروخت نہیں ہوتا اورکچھ نہ کچھ بچ جاتاہے ‘ اگرچہ وہاں پرکلیرنس سیل 50سے70فیصد کم قیمتوں پرہوتی ہے اور جب پھربھی مال باقی رہ جاتا ہے تو وہاں پھرایسے سٹورز ہوتے ہیں جوان بڑے شاپنگ مالز پر جا کر لاٹ کے لاٹ نہایت کم قیمت پر اٹھا لاتے ہیں یہ گویا ایسا ہی ہوتا ہے کہ بچ جانے والے مال کوٹھکانے لگانے کے لئے صرف ٹرانسپورٹ کے اخراجات اٹھا کرلانے کی بات ہو ‘ اورپھر یہی بچا ہوا مال اپنے چھوٹے سٹورز پرمزید کم قیمت میں غریب لوگوں کومہیا کیا جاتا ہے’ اپنے قیام کولون ‘ بون اوربرلن ہم نے یہ تمام نظارے کئے بھی اور ان سے بھرپوراستفادہ بھی کیا’ یعنی واپس آتے ہوئے گھر والوں کے لئے سستی ترین اشیاء بھی اٹھا لائے تھے ۔ اہل مغرب کے نزدیک نہ صرف کرسمس بلکہ دوموسموں کی تبدیلی نفع نقصان کے بارے میں سوچ سے ماوراء ہوتی ہے’ بقول اتباف ابرک
نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو
ہم نے کب یار ترے ساتھ تجارت کی ہے
اب یہ سلسلہ عرب اور خلیجی ممالک تک بھی پہنچ چکا ہے اور وہاں بھی خصوصاً عیدین کے مواقع پر حقیقی کلیرنس سیل عام نظر آتی ہے ‘ خوش قسمتی سے مجھے چند برس پہلے اپنے ایک کرم فرما فیروز خان آفریدی کی وساطت سے رمضان المبارک کے آغاز سے ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے قطر کے ایک مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا رمضان المبارک کی آمد آمد تھی اور ہر شاپنگ مال پر ”رمضان کریم” کے ٹائٹل کے تحت بڑے بڑے بینرز آویزاں تھے ‘ جن میں ہر قسم کی اشیاء پر 60سے 80 فیصد رعایت کاتذکرہ تھا ‘ اور حقیقتاً تھا بھی ایسا ہی لوگ دھڑادھڑ انتہائی سستے داموں اشیاء خرید رہے تھے خوراک کی اشیاء تو اتنی سستی تھیں گویامفت میں بانٹی جارہی ہیں ‘ کئی ایک سٹورز پر کلیرنس سیل کے ساتھ مخصوص رقم کی خریداری پرٹوکن بھی دیئے جارہے تھے یعنی فرض کریں دوسو ریال پرایک ٹوکن ‘ دو سے تین سوپر دوٹوکن اور یوں رقم بڑھ جانے پر ٹوکنوں کی تعداد بڑھتی رہتی تھی ‘ ان ٹوکنوں پر چاند رات کوقرعہ اندازی ہوتی ہے اور خوش قسمت افراد کو عیدکی رات بڑی چھوٹی گاڑیاں ‘ موٹرسائیکلیں دیگرقیمتی اشیاء مفت میں مل جاتی ہیں جبکہ ایسا ہی نظارہ ہم نے دوبئی ایئر پورٹ کے سکائی شاپ میں بھی یوں دیکھا کہ وہاں کھڑے اشیاء کی خریداری پرٹوکن پر ہر گھنٹے بعد ہونے والی قرعہ اندازی میں لاکھوں ڈالرہاتھ لگ سکتے ہیں۔رہ گیا ہمارے ہاں یہ سلسلہ تو ہم نے توبطور خاص رمضان شریف کے دوران مہنگائی کو دوگنا تگنا کرتے ہی دیکھا ہے نہ خدا کا خوف ‘ نہ قانون کی پرواہ ‘ بلکہ ملاوٹ سے مزید کمائی کرکے رمضان کا آخری عشرہ عمرہ کی ادائیگی اورازاں بعد حج پرجا کر ”اگلے پچھلے” سارے گناہ معاف کرنے کی سوچ ہمارا وتیرہ ہوتا ہے ۔ بقول حماد حسن
ہم ایسے سر پھرے تھے کہ ہم نے بھی شہر میں
سکہ امام وقت کاچلنے نہیں دیا

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟