نئے سال کے چیلنجز

بلاشبہ2022ء پاکستان میں سیاسی افراتفری، معاشی بحرانوں اور دہشت گردی کی لہر واپسی کا سال ثابت ہوا، سیاسی قوتوں میں تصادم کی مستقل کیفیت نے ملک کو انتشار کی طرف دھکیل دیا، دیوالیہ ہونے کے خدشات کی موجودگی کے ساتھ ملک کا معاشی منظر نامہ اس وقت انتہائی پریشان کن ہے، دیکھا جائے تو پاکستان کو اس وقت سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس نئے سال میں ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل کر پائیں گے؟ اس حوالے سے صورتحال مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔
پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی یقیناً حوصلہ افزاء نہیں رہی ہے، اختلافات کا شکار اتحاد ملک کو مشکلات سے نکالنے کی صلاحیت سے عاری نظر آتا ہے، معقول فیصلوں کے فقدان نے معاشی بحران کو مزید سنگین کیا ہے، اتحادیوں کی اندرونی کشمکش نے معیشت میں بہتری لانے اور معاملات کو درست کرنے کی صلاحیت کو مزید کمزور کیا ہے، بیل آؤٹ پیکج پر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پرآ گئے ہیں، جس سے ملک کی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں، اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ معاشی منظرنامے میں کسی بنیادی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ رہے، صرف بیرونی قرضہ ہی نہیں بلکہ اندرونی قرضوں کا سنگین مسئلہ بھی درپیش ہے۔
پاکستان کا شمار اب کمزور ترین ملکوں میں ہوتا ہے، مہنگائی ایک نئی بلندی پر پہنچ چکی ہے اور ایل سیز کی بندش سے ہماری صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے، بہت سے پیداواری یونٹس بند ہو چکے ہیں یا پھر جزوی طور پر فعال ہیں، حالات اب اس معمول کی مرمت یا جوڑ لگانے (پیچ ورک) سے آگے بڑھ چکے ہیں جو کہ ماضی کی حکومتیں کئی برسوں سے کرتی رہی ہیں۔
یقیناً کچھ بیرونی عوامل، جیسا کہ پیٹرولیم اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے، نے بھی ہماری مشکلات کو مزید بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ بنیادی طور پر پالیسی کی ہی خامیاں ہیں جو اب ملک کو لپیٹ میں لے رہی ہیں، موجودہ مالیاتی ٹیم کے تحت حالیہ دنوں میں پاکستان کے بدترین معاشی بحران سے نکلنے کی امید بہت کم ہے، جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کا اندرونی استحکام اور قومی سلامتی داؤ پر لگا ہوئی ہے، چنانچہ 2023ء میں معیشت کا استحکام ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
اگرچہ قبل از وقت انتخابات کے امکانات بہت کم ہیں، بہر کیف موجودہ قومی اسمبلی کی مدت اگست میں ختم ہو جائے گی، انتخابات میں تقریباً آٹھ ماہ باقی ہیں لیکن اگر سیاسی قوتوں کے درمیان مسلسل محاذ آرائی جاری رہی تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد بھی انتہائی مشکل ہو جائے گا، پنجاب میں جاری سیاسی لڑائی نے سیاسی فضا کو مزید بگاڑ دیا ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل سے صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے جس سے وفاقی حکومت پر مزید دباؤ بڑھے گا۔
اگرچہ عسکری قیادت نے سویلین معاملات سے دور رہنے کا عہد کیا ہے، اس کے باوجود سیاسی منظر نامے پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا سایہ غالب ہے، عمران خان سابق آرمی چیف کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، جنہیں وہ اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں ہونے والی ہر غلطی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ نئی فوجی قیادت ماضی کی ان غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے مداخلت کرے، درحقیقت سابق وزیراعظم سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے حصول کا یہ خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، عمران خان اور ان کی پارٹی کے حکومت سے مذاکرات یا قومی اسمبلی میں بیٹھنے سے انکار نے جمہوری سیاسی عمل کو کمزور کر دیا ہے، بحران کے سنگین ہونے پر فوج کے سیاسی میدان میں آنے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے، چنانچہ یہ اقتدار کے اس کھیل میں حقیقی معنوں میں غیر جانبدار رہنے سے متعلق فوج کے عزم کا امتحان ہوگا۔
بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی لہر کی واپسی نے ہمارے سکیورٹی چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے، دہشت گردی کی تازہ ترین لہر نے اب دارالحکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جو سرحد پار سے کام کرنے والے کالعدم عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کی بحالی کا واضح پیغام ہے،گزشتہ چند مہینوں کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، جس میں ٹارگٹ کلنگ، خودکش بم دھماکے اور سیکیورٹی تنصیبات پر حملے خیبر پختونخوا میں معمول بن چکے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گرد گروپ کا اصل ہدف رہے ہیں، صرف خیبر پختونخوا ہی نہیں بلکہ بلوچستان بھی دہشت گردی کی تازہ لہر کی زد میں ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات کالعدم ٹی ٹی پی اور بعض بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے درمیان ظاہری اتحاد ہے، اس گٹھ جوڑ کو مغربی صوبے میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے کسی حد تک شورش پر قابو پالیا تھا، لیکن دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ علیحدگی پسند گروپ ایک بار پھر مضبوط ہو رہے ہیں، عسکریت پسندی کے دوبارہ سر اٹھانے سے ہماری انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ملک کو بیرونی محاذ پربھی بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی جغرافیائی سیاست کے پاکستان کی قومی سلامتی پر براہ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ہماری مغربی سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ہمارے سکیورٹی خدشات کو بڑھا دیا ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بگڑ رہے ہیں۔
ہم ملکی اور بیرونی محاذوں پر ان متعدد چیلنجز کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں؟ یہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے اہم ہوگا، نئے سال کے آغاز پر ہم ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے ہیں، امکانات بہت زیادہ امید افزاء نظر نہیں آتے۔
( بشکریہ، ڈان، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟