ٹیکس وصولی کا کمزور نظام

ٹیکس وصولی کی بلند شرح کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کیونکہ یہ ملک کے ذخائر میں اضافے کا آسان ذریعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس وصولی کا بہترین نظام متعارف کرایا گیا ہے، دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس چوری کا تصور نہیں ہے، وہاں کا مربوط نظام ٹیکس چوری کی اجازت نہیں دیتا، مگر ہمارے ہاں ٹیکس دینے کا رواج کم ہے جبکہ دوسری طرف ریاست ٹیکس وصولی کا بہترین نظام متعارف کرانے میں ناکام رہی ہے،22کروڑ آبادی میں سے صرف29لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں جن میں دو تہائی تعداد تنخواہ دار طبقے کی ہے، یعنی تاجر برادری میں صرف آٹھ دس لاکھ افراد بمشکل ٹکیس دیتے ہیں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کو دسمیر2022کیلئے225ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا ہے، دسمبر میں ٹیکس وصولی کا ہدف965ارب روپے تھا مگر740ارب روپے وصول ہو سکے ہیں،ریونیو کی یہ کمی آنے والے دنوں میں رواں مالی سال کے منی بجٹ کی صورت سامنے آ سکتی ہے، متوقع طور پر ٹیکسوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، حکومت60ارب روپے کے حصول کیلئے ایک سے تین فیصد کی مد میں فلڈ لیوی لگانے کے آپشنز پر غور کر رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو جہاں خسارا محسوس ہو گا اس کمی کو عوام پر اضافی بوجھ ڈال کر پورا کیا جائے گا، یہ حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمیں ٹیکس وصولی کے ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں تمام تاجروں کی رجسٹریشن ہو، رجسٹریشن کے بغیر کاروبار کی اجازت اب بھی نہیں ہے مگر چور دروازوں کا فائدہ اٹھا کر لاکھوں لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آ رہے ہیں تو اس میں بنیادی وجہ نظام کی کمزوری ہے، مہذب معاشروں میں تاجر بخوشی ٹیکس ادا کرتے ہیں جس کے بدلے ریاست انہیں سہولیات فراہم کرتی ہے، ہمیں بھی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کر کے سہولیات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ تاجر ٹیکس چوری کی بجائے بخوشی ٹیکس ادا کریں۔
آٹے کی بے قابو قیمتیں، عوام کو ریلیف دیں
ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی آٹے کی قیمتوں میں ہوشر با اضافہ ہوا ہے جہاں 20 کلو کا تھیلا 2600 روپے کا ہوگیا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف قیمتیں بڑھ گئی ہیں تو دوسری طرف مارکیٹ سے آٹا ملنا بھی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزوں نے آٹا مزید مہنگا فروخت کرنے کے لئے غائب کر دیا ہے، جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، ایک طرف جہاں بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، آٹے جیسے بنیادی غذائی آئٹم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے ملک میں غذائی قلت کا شکار افراد کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
خیر پختون خوا میں آٹا مہنگا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب سے آٹے کی نقل و حمل پر مسلسل چھ ماہ سے پابندی عائد ہے جس کے باعث صوبے میں اس کی طلب و رسد میں فرق مزید بڑھ گیا جب کہ رہی سہی کسر ذخیرہ اندوزوں نے نکال دی ہے جو آٹے کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرنے کے لئے اسے ذخیرہ کر رہے ہیں، آٹا روز مرہ استعمال کی ایک ایسی لازمی آئٹم ہے جس کا امیر، غریب یکساں استعمال کرتے ہیں، لہذا آٹے کی قیمت بڑھنے یا قلت سے ہر طبقے کے لوگ براہ راست متاثر ہوتے ہیں، خاص طور پر دیہاڑی دار طبقے کے لئے اپنے بال بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی محال ہو گیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیںکہ شہریوں کی غذائی ضرورت کو پورا کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ آٹے کی بڑھتی قیمتوں کا فوری نوٹس لے، اس کے جو بھی اسباب ہیں انہیں دور کیا جائے، خاص طور پر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جانا چاہئے تاکہ مارکیٹ میں آٹے کی قلت پیدا نہ ہو اور ہر خاص و عام کے لئے اس کی دستیابی یقینی ہو، بلاشبہ اس ضمن میں انتظامی افسران کا کردار اہم ہے، اگر ذخیرہ اندوز آٹا ذخیرہ کر رہے ہیں تو یہ سراسر انتظامیہ کی نااہلی یا پھر ملی بھگت سے ہو رہا ہے، لہذا جس علاقے یا شہر میں آٹے کی قلت پیدا ہو تو وہاں کے متعلقہ انتظامی افسران سے بھی باز پرس ہونی چاہئے تاکہ پہلے سے مہنگائی میں پسے عوام کم از کم آٹے کی مناسب نرخوں پر فراہمی کے ساتھ ساتھ اس کی دستیابی بھی یقینی بنائی جا سکے۔
ڈاکٹرز کو بھتے کی کالیں، نوٹس لیا جائے
دہشت گردی کی صورت میں بدامنی پھر سے اٹھا رہی ہے، دیگر جرائم بھی بڑھتے جا رہے ہیں، خاص طور پر خیبر پختون خواہ میں بھتہ وصولی کے لئے دھمکی آمیز کالز کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ صوبے میں پہلے تاجروں کو بھتے کی کالیں موصول ہو رہی تھیں، جس پر چند روز قبل پشاور کے تاجروں نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور کور کمانڈر پشاور کر خط لکھ کر تحفظ کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا تھا، لیکن اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ڈاکٹروں کو بھتے کی کالیں موصول ہونے لگی ہیں، زیادہ تر کالیں ان ڈاکٹرز کو وصول ہو رہی ہیں جو پرائیویٹ کلینکس چلا رہے ہیں جن سے لاکھوں روپے بھتہ طلب کیا جا رہا ہے اور نہ دینے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اس صورت حال پر ڈاکٹرز شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پرائیویت ہسپتالوں کا ملک کے صحت کے نظام میں اہم کردار ہے، پھر ڈاکٹرز خواہ سرکاری ہسپتال کے ہوں یا پرائیویٹ ہسپتالوں کے، انہیں تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس لئے اس مسئلے کے بروقت تدارک کے لئے اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا جانا چاہئے، کیونکہ اگر ڈاکٹرز کو تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو عوام کے لئے علاج معالجہ کی سہولیات کی فراہمی مشکل ہو جائے گی، پرائیویٹ ہسپتالوں کے ڈاکٹرز نے خدمات کی فراہمی ترک کی تو اس کا بوجھ سرکاری ہسپتالوں پر پڑے گا جو پہلے سے ہی اضافی بوجھ برداشت کر رہے ہیں، یوں صحت کا نظام بھی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹروں کو تحفظ کی فراہمی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو