نا متوازن معاشرہ

ہمارے ہاں جذبات اور جذباتی ہونے کا بڑا چرچا رہتا ہے ذرا سی بات پرلوگ جذباتی ہونے کا طعنہ دینے لگتے ہیں کسی سے بحث کرو تو دلیل سے بات کرنے کی بجائے کہا جاتا ہے کہ ارے آپ تو جذباتی ہو گئے کچھ ہم بھی آواز تیز اور غصے کی کیفیت کا اظہار کرنے لگتے ہیں لیکن جذبات میں آنے کا ہر گزیہ مطلب یہ نہیں کہ کوئی غیر فطری چیز ہے جذبات انسانی فطرت کاحصہ ہے جذبات ہی انسان سے ایسے ایسے کام کرانے کا باعث ثابت ہوتے ہیں جو عام طور پر انسان کر نہیں پاتا اس میں مثبت او ر منفی جذبات دونوں شامل ہیں کوشش ہونی چاہئے کہ منفی جذبات پر قابوپایا جائے اور مثبت جذبات کو روبہ عمل لانے کی سعی ہو ۔ جذباتی ہونا کوئی برائی نہیں البتہ بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے کہ انسان جذبات کی رو میں بہہ جائے اور اچھے اور برے کی تمیز کے قابل نہ رہے ۔ ہمارے ہاں جذبات جیسے نازک چیزوں پر بات کرنے کا رواج ہی نہیں اس کی وجہ سے جذبات جیسے معاملات زیر بحث ہی نہیں آتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو سمجھنے پرکھنے اوران کے احترام کا رواج ہے یہی وجہ ہے کہ گھر میں او ر معاشرے دونوں میں گھٹن بڑھ رہاہے اور ہر کسی کو محرومی اور نظر انداز کرنے کی شکایت ہے یہ ہمارے مجموعی سماج کا رویہ ہے میرے خیال میں اس طرز عمل اور طرز معاشرت کی پہلی اور بڑی وجہ تعلیم اور شعور کا فقداں ہی ہے ہماری درس گاہوں اور نہ ہی ہمارے گھروں میں جذباتی پختگی پر کوئی بات ہوتی ہے ہم اسے ضروری ہی نہیں سمجھتے اور اگر ہو بھی تو بہت کم حد تک ہوتی ہو گی یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ہماری زندگیوں پر جذبات کا کتنا اثر ہوتا ہے جذبات کو بس ہم اتنا ہی سمجھتے اور جانتے ہیں کہ جیت کا جذبہ اور ہار کی ندامت جیت ہوئی تو خوشی کا ٹھکانہ نہیں اور ہار ہوئی تو آپے سے باہرحالانکہ ہار اور جیت کامیابی اور ناکامی دونوں انسانی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں ناکامی اگر نہ ہوتی تو کامیابی کا علم کیسے ہوتا کہ کامیابی کیا ہوتی ہے ناکامی اگر نہ ہوتی ہار جیت نہ ہوتی توزندگی یکطرفہ ہوتی ون وے ٹریفک کی طرح کہ ناک کی سیدھ میں چلتے چلو کہیں کوئی موڑ نہیں واپسی نہیں انسانی زندگی ون وے ٹریفک نہیں بلکہ اس میں کئی موڑ آتے ہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جدوجہد کرنی پڑتی ہے مصائب کوجھیلنا پڑتا ہے خوشی کے لمحات بھی آتے ہیں ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ جذبات کوکیسے قابو میں رکھا جائے مشکل وقت میں صبر و تحمل اور برداشت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور خوشی میں اس قدر بدمست نہ ہوا جائے کہ انسانیت کے دائرے سے نکل کر حیوانیت و شیطانیت اور دوسروں کے لئے خطرے کا باعث بنیں۔ یہ جو میچ جیتنے کی خوشی میں عید کا چاند نظر آنے پر بیٹے کی پیدائش پر یا ایسے ہی خرمستی میں لوگ دھڑا دھڑ ہوائی فائرنگ کرنے لگتے ہیں اس کے نتیجے میں کتنے گھروں کا چراغ گل کتنے لوگ گھائل اور معذور ہوجاتے ہیں ان کی فائرنگ سے مائیں اپنے بچوں کو گھر کی دہلیز پار کرنے سے روک کر رکھتی ہیں ان کو کمروں میں بند کر دیتی ہیں اس کی وجہ وہ خوف کی فضا ہے جسے کسی دوسرے نے اپنی خوشی کے اظہار کے لئے قائم کیا ہوتاہے جذبات کی سمجھ ہوتی اور احساسات نام کی کسی چیز سے ان کو اور ان کے خاندان کو واقفیت ہوتی تو نوبت اس کی نہ آتی کہ خود خوش ہو کر دوسروں کو غمزدہ کیا جائے بلکہ انسانیت اور احترام آدمیت کاتقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کیا جائے ایسا اشرف جذبات کے اظہار سے ہی ہوتا ہے بہیمیت کے جذبات خواہ وہ صنفی ہوں جسمانی ہوں یا معاشرتی قابل نفریں ہوتے ہیں اور ان جذبات کے باعث معاشرے میں فساد ‘ بگاڑ ‘ ظلم اور زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں ۔ حالیہ دنوںمیں ایک سول جج کی بیوی کی بہیمیت اور سندھ کے ایک نام نہاد پیر کے معصوم بچیوں سے بہیمیت کی انتہا کرنے کی بڑی باز گشت ہے مگر بدقسمتی سے اس طرح کے کرداروں کی بہیمیت کا چند دن تذکرہ تو ہوتا ہے نمائشی مذمت بھی ہوتی ہے مگر چونکہ معاشرہ بطور معاشرہ اس کے خلاف اٹھ کھڑی نہیں ہوتی پولیس و عدالتوں کاحال سبھی کے سامنے ہے جس کی وجہ سے چند دن بعد یہ کردار فراموش ہونے لگتے ہیں اور چونکہ مظلوم اکیلا یا اکیلی اور کمزور ہوتی ہے اس لئے وہ زیادہ دیر ان ظالموں اور بہیمانہ کرداروں کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی مجبوری کی صلح کرنی پڑتی ہے ظالم و جابر کچھ دے دلا کر معاملے کو عدالت میں بھی سمیٹ لیتا ہے کتنی مثالیں ملیں گی ذرا یاد کریں اس معاشرے میں انصاف لینے کے لئے بھی اثر ورسوخ اور روپے پیسے کی ضرورت پڑتی ہے موٹروے زیادتی کیس کاواقعہ یاد کریں جس میں خاتون کا ذکر کہیں نہیں آیا اس لئے کہ وہ بااثر خاندان کی تھی اس کے ملزم پکڑے بھی گئے اور سزا بھی ہو گئی یہاں میڈیا کا کردار بڑا شرمناک ہے جہاں مظلوم پر ظلم کی داستان تو بیان کرنے کا رجحان ہے مگر ظالم کے ظلم کا بیان نہیں ہوتا اس پر رپورٹیں نہیں بنتیں اسے سزا دینے کے مطالبات نہیں ہوتے جہاں کا معاشرہ مظلوم کا ساتھ نہ دے جہاں کی میڈیا مظلوم ہی کی مزید رسوائی جانے انجانے کرنے میں کردار بن جائے وہاں پر جذبات و احساسات کہانی اور بے حقیقت چیزیں ہی سمجھی جائیں گی۔ ہمارا معاشرہ بس زندگی جیسے تیسے گزارنے کو ہی کافی سمجھتا ہے ہماری ذہنوں میں زندگی کمانا کھانا اور سونا ہے اس کے علاوہ رسوم ادا کرنے کا نام زندگی ہے اور ہم اسے اس طرح گزارتے آئے ہیں یہی حقیقی زندگی سے انحراف ہی ہے کہ آج ہم نہ دین کے رہے نہ دنیا کے ہمارے معاملات درست نہیں ہوتے اس لئے کہ ہم تو حقیقی زندگی گزارنے کے عوامل سے ہی ناواقف ہیں دیکھا جائے تو ہم میں اور جانوروں میں فرق ہی کیا رہ گیا ہے ۔ بس وہ کماتے نہیں قدرت نے یہ وصف ان میں رکھا ہی نہیں اور نہ ہی وہ اس کے محتاج ہیں باقی کھاتے اور سوتے وہ بھی ہیں جانور اور انسانوں میں امتیازی جذبات اور جذبات سے عاری ہونے کا ہے انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ اس میں احساسات ہوتے ہیں اس کو صرف غذاو سونے ہی کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ انسانی سماجی حیوان ہے اس کے اندروں میں کچھ ایسا ہے جس کوکچھ اور کا احتیاج بھی ہوتا ہے باہر کے حالات تو ہمارے بس میں نہیں مگر اندرونی نظام درست ہو احساس و مروت کا پاس کیا جائے اور جذبات پر قابو پانے کی کوشش ہو تو باہر کے طوفان کے اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے اس حالت تک پہنچنے کے لئے سب سے ضروری چیز جذبات کا مثبت استعمال کرنا اور ان کو اندر سے باہر آنے کے لئے معقول مواقع فراہم کرنے کا ہوتا ہے یہی وہ نکتہ اور مشکل ہے جسے ہمارے معاشرے میں اہمیت ہی نہیں دی جاتی ہم غم اور خوشی دونوں مواقع پر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر دو کے کچھ حدودو قیود ہیں عدم برداشت کے باعث آج ہم ایک متشدد قوم کے طور پر جانے جانے لگے ہیں جس رواداری اور تحمل صبر و برداشت کی ہمیں بار بار تلقین ہوتی ہے اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ وہ صابریں کے ساتھ ہیں مگر آج ہر کوئی اپنے اندر جھانک کر دیکھے تو وہ خود کو صابرین میں سے نہیں پائے گا بلکہ خود ان کا ضمیر گواہی دے گا کہ وہ بے صبر اور جلد باز ہے اس طرح کے معاشرے میں توازن پرمبنی زندگی ممکن ہی نہیں جس چیز میں توازن نہیں ہوتا تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں