بجلی کے بل ۔ احتجاج بڑھ رہا ہے

نگران حکومت کے وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں اور بھاری بھرکم بلوں پر عوام کا غصہ جائز ہے مگر مسئلے کے حل کی طرف آنا چاہیے۔یہ بھی کہا کہ بجلی کے بل ماہ جولائی کے ہیں جبکہ ہم اگست میں آئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں پہلے ہی سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا ذمہ دار کون ہے اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو ان وجوہات سے بھی آگاہ کریں جن کی وجہ سے بجلی کے نرخ بڑھے۔ بڑی حد تک ان کا مؤقف درست ہے نگران حکومت اگست میں آئی ہے بل ماہ جولائی کے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ماضی میں ہوا صرف سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی منظوری اب ہوئی مگر جس بات کو وہ نظرانداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ عوام کے سامنے حکومت کب آئی کا مسئلہ نہیں بلکہ بجلی کے وہ بھاری بھرکم بل ہیں جن کی جتنی ذمہ داری سیاسی حکومت کے ذمہ داروں پر عائد ہوتی ہے اتنی ہی ان پالیسی سازوں پر جو ہماری بیوروکریٹک اشرافیہ کا مستقل حصہ ہوتے ہیں۔یہی اصل میں نظام چلاتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ آئی پی پیز سے ماضی کے معاہدے ہیں ان میں سے بعض کمپنیاں ایک سابق حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات کی ہیں۔ آئی پی پیز معاہدوں پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے لیکن کبھی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ یہ بھی درست ہے کہ نگران حکومت ایسے فیصلے نہیں کرسکتی جو پالیسی سازی کے زمرے میں آتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ آخر عوام کدھر جائیں ؟ حکومتی رٹ کا عالم یہ ہے کہ پچھلی ڈیڑھ دہائی سے ہر حکومت بجٹ کے موقع پر جو کم سے کم ماہانہ اجرت مقرر کرتی ہے اس پر ہی عملدرآمد نہیں کرواپاتی۔ اس وقت یہ سوال نہیں ہے کہ کون کب آیا کن کے فیصلوں کے نتائج اب سامنے آرہے ہیں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بجلی کے بل لوگوں کی اوسط ماہانہ آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں نیز یہ کہ یہ نرخ خطے کے تین دوسرے ملکوں ایران، بھارت اور افغانستان کے مقابلہ میں کہیں زیاہ ہیں۔ آئی پی پیز سے معاہدوں میں قومی مفاد کی بجائے کمیشن اور دوسری مراعات کو مدنظر رکھنے والوں نے حالات کو یہاں تک پہنچایا۔ ماضی کی حکمران جماعتیں اس مسئلے پر ہمیشہ باہم دست و گریباں رہیں لیکن مسئلہ کسی نے حل نہیں کیا۔ اب بھی پچھلے چنددنوں سے پیپلزپارٹی اور (ن)لیگ کے دوسرے درجہ کے رہنمائاور محبین اس معاملے پر ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں جس امر کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے ادوار میں آئی پی پیز سے ہوئے معاہدوں کی بنیادی شقوں کو کس نے تبدیل کرایا اور وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پہلے معاہدوں میں ترامیم کرائیں بعدازاں ان آئی پی پیز میں حصہ داری اور ملکیت حاصل کی؟ حالیہ عرصے میں بجلی کے بلوں کے خلاف ہونے والا احتجاج قوت برداشت کے مکمل خاتمے کا نتیجہ ہے۔ ماضی میں حکمران رہنے والی جماعتیں اس مسئلہ پر ایک دوسرے کو لتاڑیں یا حقائق کو مسخ کرکے اپنے حامیوں کا خون گرمائیں یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ بجلی کی کم سے کم پیداواری لاگت پن بجلی کی ہے۔ہماری دانست میں اپنے اپنے دور کی غلطیوں پر کھلے دل سے معذرت کی جانی چاہیے۔مثال کے طور پر ساہیوال کول پاور پلانٹ کا معاملہ ہے غیرملکی کوئلہ پر چلنے والا یہ پاور پلانٹ جہاں لگایا گیا تکنیکی طور پر اس مقام کا انتخاب غلط تھا۔ اصولی طور پر تو کول پاور پلانٹ مقامی کوئلے پر لگایا جانا چاہیے تھا ثانیا مقام کے انتخاب میں بندرگاہ سے کم سے کم فاصلہ رکھا جاتا مگر یہ پلانٹ لگانے والوں کی دنیا وسطی پنجاب سے شروع ہوکر یہیں ختم ہوجاتی تھی اس لئے کسی نے بھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ غیرملکی کوئلے سے چلنے والے اس پلانٹ پر فی یونٹ پیداواری لاگت میں ساڑھے 4روپے فی یونٹ بندرگاہ سے ساہیوال تک کوئلہ لے جانے کی مال برداری کی وجہ سے اضافی بوجھ ہوں گے۔یہ محض ایک مثال ہے ہمارے نظام اور محدود فہم کا المیہ یہی ہے کہ طویل المدتی حکمت عملی اور عوامی مفادات پیش نظر نہیں رکھے جاتے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں ہونے والے آئی پی پیز معاہدوں کی اہم ترین شق یہ تھی کہ ایک مخصوص مدت کے بعد یہ آئی پی پیز پراجیکٹ حکومت کی ملکیت میں آجائیں گے اس شق میں کیسے تبدیل ہوئی ذمہ دار کون ہے اور کن خاندانوں نے مستقل کاروباری مفاد حاصل کئے؟۔ گو آج کے حالات میں یہ سوال ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ لوگوں کو ریلیف کیسے دیا جاسکتا ہے؟۔ اس ضمن میں اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ بجلی کے سلیب سسٹم (یونٹوں کے استعمال میں درجہ بندی کے ساتھ نرخوں کاتعین)کو کسی تاخیر کے بغیر ختم کردیا جائے۔ صارف جتنی بجلی استعمال کرے اس کا بل درجہ بندی کے نرخوں کے بغیر دے۔ ثانیا مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی بجائے صرف استعمال شدہ بجلی کے نرخوں پر سیلز ٹیکس لیا جائے۔پیک آور کا استحصالی نظام کسی تاخیر کے بغیر ختم کیا جائے۔ بھاری بھرکم بلوں کے خلاف سراپا احتجاج شہریوں کو اس سے غرض نہیں کہ یہ کیسے ہوگا وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہر طرح کی مفت بجلی کی فراہمی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی محکموں کے نادہندگان سے وصولی کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ بجلی چوری اور اس میں متعلقہ کمپنیوں کے اہلکاروں کی معاونت ہر دو کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ احتجاج کرنے والے صارفین کو متعلقہ کمپنیوں کے دفاتر اور ملازمین کو تشدد کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے پرامن احتجاج ہر شہری کا قانونی و جمہوری حق ہے۔ پرتشدد رویہ اور عمل دونوں مسئلہ کے حل ہونے میں معاون ثابت نہیں ہوں گے بلکہ اس سے صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لئے متعلقہ وزارت کی یہ تجویز کسی بھی طرح درست نہیں کہ جولائی سے ستمبر تک کے بلوں میں دی گئی رعایت کو اکتوبر سے فروری تک پانچ ماہ کے دوران صارفین سے 2 روپے یونٹ کے اضافی چارجز کے ذریعے وصول کرلیا جائے۔یہ تجویز دینے والے 95فیصد صارفین کی اوسط ماہانہ آمدنی سے قطعی طور پر نابلد ہیں۔ ہم مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ بجلی کے صارفین پر سلیب سسٹم کا نفاذ، بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار، ٹی وی اور ریڈیو فیس کی بلوں کے ذریعے جبراً وصولی ایک ہی بل میں تین بار سیلز ٹیکس کی وصولی، یہ بذات خود ظلم ہے۔ یہ بجا کہ نگران پالیسی سازی پر مبنی فیصلوں کا اختیار نہیں رکھتے مگر نیپرا کا ادارہ تو موجودہے۔بجلی کے نرخوں میں اضافے اور دوسری مدوں میں ایڈجسٹمنٹ کی رقم کے نفاذ وغیرہ تک ہی تو اس کی ذمہ داریاں نہیں اس کے ذمہ داروں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بھاری بھرکم بلوں سے جنم لینے والے احتجاج میں شریک شہریوں کی دادرسی نہ ہوئی تو کیا احتجاج پرامن رہے گا؟ خاکم بدہن احتجاج پرامن نہ رہا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، فی الوقت سب سے زیادہ اس نکتہ کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟