کشمیریوں کی اخلاقی فتح

بھارت کے چیف جسٹس دھنانجیا پشونت چندراچد پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے بھارتی آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کے دوران مودی حکومت سے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق سوال کرتے ہوئے استفسار کیاہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا کوئی ٹائم فریم یا پیشرفت کا منصوبہ بنایاگیا ہے چیف جسٹس نے سویسٹر جنرل تشارمہتاسے سوال کیا’ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قومی سلامتی سے متعلق امور ہیں ‘ قوم کی حفاظت بذات خود بنیادی امر ہے ‘ بھارتی سپریم کورٹ میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعداس وقت ایک اہم سوال زیر بحث ہے اور جو دلائل اس حوالے سے سامنے آرہے ہیں ‘ ان سے نظر بہ ظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی موقع پر نریندر مودی سرکار کے اس اقدام کوبھارتی آئین سے متصادم قرار دے کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کے احکامات صادر کرسکتی ہے’ تاہم حتمی فیصلہ کیا ہوگایہ تو مقدمے کی مکمل شنوائی اور دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد ہی دیا جا سکے گا ‘ تاہم اس وقت جس چبھتے ہوئے سوالوںکابھارتی سپریم کورٹ میں مودی سرکار کوسامنا ہے ان سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے مطالبات ضرور رنگ لائیں گے اور انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرکے مودی سرکار کے غیرآئینی ‘ غیر قانونی اور غیراخلاقی اقدام کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کرکشمیریوں کی مشکلات کاحل نکالنے میں اپنا کردار ضرور ادا کرے گی۔ جس کے بعد یہ مسئلہ ایک بارپھرعالمی سطح پراجاگر ہوجائے گا اور دنیابھر کے کشمیری عوام اسے ایک بارپھراقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے جانے اورسلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے میںاپنا کردارادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے ‘ تاہم اس مسئلے کاایک ضمنی پہلو یہ ہے کہ جب سے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی ہے ‘ بھارتی حکومت نے لاکھوں بھارتیوں کوغیرقانونی طور پرمقبوضہ کشمیر کی جعلی شہریت دے کر وہاں مستقل رہائش کے دستاویزات تھما دیئے ہیں جس کا مقصد دراصل مقبوضہ وادی کی ڈیمو گرافی کوتبدیل کرکے غیر کشمیریوں خصوصاً ہندو آبادی میں اضافہ ظاہر کرنا ہے تاکہ اگر اقوام متحدہ کے تحت وہاں استصواب رائے کا انعقاد ہوتومسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کی آبادی زیادہ ظاہر کی جاسکے اور یوں کشمیر پر غیرمسلموں کاحق تسلیم کرایا جا سکے ‘ اس کشمیری رہنمائوں کو اس قسم کی سازشوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے