انتخابات کی تاریخ۔قانونی موشگافیاں

وزارت قانون و انصاف نے صدرمملکت کی جانب سے انتخابات کے لئے تاریخ دینے اور چیف الیکشن کمشنر کواس حوالے سے صلاح مشورہ کے لئے چند روز قبل خط لکھنے کے معاملے پر جوابی خط ارسال کرکے واضح کیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کااختیارالیکشن کمیشن کے پاس ہے اور الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابات کی تاریخ دینے کی مجاز اتھارٹی الیکشن کمیشن ہی ہے’ خط میں کہاگیا ہے کہ ایک ساتھ صاف شفاف ‘ منصفانہ انتخابات کروانے کے لئے صرف الیکشن کمیشن تاریخ دے سکتا ہے خط میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 48(5)صدر کوانتخابات کی تاریخ دینے کااختیار تب دیتا ہے جب صدر 58(2) کے تحت اسمبلی تحلیل کرے ‘ خط میں مزید کہاگیا ہے کہ اگر فرض کریں صدر 48(5) پرانحصار کر بھی لیں تو صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں اور اگر صدر قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دیں گے توملک بھرمیں ایک ساتھ انتخابات ممکن نہیں ہوں گے’ اگر صدر کے تاریخ دینے کااختیارتسلیم کرلیاجائے توصوبوں میں تاریخ گورنر دینے کے مجاز ہوں گے ۔ایسے میںچاروں صوبوں کے گورنر الگ الگ تاریخ دے سکتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ اسمبلی آرٹیکل58(1) کے تحت وزیر اعظم کی ایڈوائس پرتحلیل ہوئی ہے’ صدر کو دی جانے والی آرٹیکل 58 ون کے تحت ایڈوائس آرٹیکل48 سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ‘ اس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 48 ون کے تحت صدر کے پاس ایڈوائس واپس بھیجنے کا اختیارہوتا ہے آرٹیکل 58 ون صدر کوایڈوائس واپس بھیجنے کی اجازت نہیں دیتا ‘ اس وضاحت کے بعد انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے حوالے سے وزارت قانون و انصاف کی بات زیادہ وزنی لگتی تو ہے تاہم چونکہ ہر قانونی اورآئینی معاملے کے حوالے سے حتمی فیصلہ آئین کی مختلف شقوں کی وضاحت کرنے سے سپریم کورٹ سے ہی حاصل کی جاسکتا ہے اس لئے جس طرح اس ضمن میں آئینی اور قانونی ماہرین کے مابین بحث جارہی ہے تو ممکن ہے کہ یہ معاملہ بھی بالآخر اعلیٰ عدلیہ ہی طے کرے میں مدد گار ہو’اس سلسلے میں چونکہ سیاسی جماعتوں کے مابین بھی تاریخ کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں اور کچھ حلقے اسمبلی کی تحلیل کے 90 روزبعد انتخابات کرانے کامطالبہ کر رہے ہیں اور کچھ اس بات پر مصر ہیں کہ جب تک نئی حلقہ بندیاں نہ ہوجائیں انتخابات کرانا غیرآئینی ہوگاکیونکہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد اب نئی حلقہ بندیاں لازم ہو چکی ہیں ‘ اس لئے اگر انتخابات کے لئے حتمی تاریخ طے کرنے کے حوالے سے صدرمملکت کے اختیار کوایک طرف بھی رکھا جائے تو اسمبلی کی تحلیل کے بعد نو مہینے کی مدت یاپھر نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں چلنے والی بحث کوکسی منطقی نتیجے تک پہنچانا ناگزیر امر ہے’ بہرحال دیکھتے ہیں کہ بالآخر اونٹ کس کروٹ بیٹھتااور یہ بحث کہاں جا کر اختتام پذیر ہوتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے