جو بوئوگے وہی کاٹو گے

ایک نازک معاشرتی مسئلہ کے عنوان گزشتہ کالم میں بیٹیوں کے والدین کو کچھ مشورے دیئے گئے تھے اس کا کافی اچھا ردعمل آیا ایک لڑکی نے کسی کی وساطت سے رابطہ کرکے رشتہ طے ہونے کے بعد درپیش مسائل بارے لکھنے کی فرمائش کی اور ایک ایسی کہانی بھی بیان کی جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہے اچھانہیں لگتا کہ کسی کی کہانی لکھی جائے اس لئے سوائے بنیادی اور اصلی ماخذ کے باقی کہانی کے جملہ کردار اور واقعات تبدیل کر رہی ہوں تاکہ کسی کی ذاتی زندگی بارے کچھ سامنے نہ آئے البتہ باعث عبرت و سبق آموز حصہ اس لئے رہنے دے رہی ہوں کہ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں اور دوسروں کی زندگیوں ‘ مستقبل اور جذبات سے کھیلنے سے احتراز کریں اور اس کہانی کے کرداروں کے انجام سے سبق حاصل کریں۔ بطور مسلمان ہمیں قدم قدم پر اس حدیث مبارک کے مفہوم کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے لئے پسند کرے وہ اپنے مسلمان بھائی اور دوسروں کے لئے بھی پسند کرے ایک اور حدیث پاک کامفہوم ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان اور افراد محفوظ رہیں ۔ اب جھجکتی جھجکتی وہ کہانی بیان کر رہی ہوں اس امید کے ساتھ کہ یہ نہ صرف سبق آموز ہو گی بلکہ کئی والدین اور لڑکے لڑکیوں کو اس کہانی میں اپنا رنگ بھی نظر آئے اور وہ اس طرح کی غلطی دہرانے سے گریز کریں اور جو ایسا سوچ رہے ہیں وہ باز آئیں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انسان جو کچھ دوسرے کے ساتھ کرتا ہے یا پھر سوچتا ہے خود ان کے ساتھ قدرت ویسے ہی کرتی ہے خاص طور پر رشتہ کرتے وقت لڑکے کے والدین لڑکی دیکھتے ہوئے اور بالعموم لڑکی کے والدین بھی جس قسم کا معیار شرائط اور نازک مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ظلم و زیادتی اور توہین کے زمرے میں آتے ہیں اس طرح کے لوگوں کو پھر قدرت زندگی بھر کے لئے سبق بھی سکھاتی ہے بہرحال یہ ایک اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے دوافراد کی کہانی ہے جن کی عمر سنجیدگی کی نہیڈں کم فہمی اور ناپختگی کی ہے ایک اچھے گھر کی ہونہار لڑکی پورے تعلیمی ادارے کی مرکز نگاہ بنتی ہے ان کی قابلیت کی دھاک بیٹھی ہوتی ہے ایسے میں ایک کمزور شخصیت کا حامل لڑکا ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دونوں میں روایتی لیلیٰ مجنون کی طرح کی نہیں کچھ فاصلے سے محبت کی ابتداء ہے کافی عرصہ معاملات اسی طرح چلتے ہیں لڑکے کی سنجیدگی و ضد کے باعث بات رشتے تک چلی جاتی ہے لیکن لڑکے کی سنجیدگی کے باوجود والدین رشتہ لے کر اس انداز سے جاتے ہیں کہ لڑکی کے والدین کو ناگوار گزرتا ہے مگر وہ پی جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود لڑکی کے والدین شروع دن سے مخمصے کا شکار تو ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا بہرحال معاملات چلتے چلتے تعلیم مکمل اور رخصتی کاوقت آتا ہے تیاریاں مکمل ہوتی ہیں اسی اثناء میں پس پردہ لڑکی کے والدین بیٹے کو ور غلاتے ورغلاتے تاخیر درتاخیر بالاخر انکار کا پیغام دیتے ہیں جسے لڑکی کے گھر والے اور خاص طور پر لڑکی کمال حوصلے سے سامنا کرتی ہے شاید اس اثناء میں وہ ذہنی طور پر اس کے لئے پوری طرح تیار ہوتے ہیں انکار کا پیغام ابتدائی طور پرلڑکا خود ہی لڑکی کو بھیجتا ہے لڑکی کمال جرأت کے ساتھ منگنی کے جملہ لوازمات خود ہی لڑکے کو کسی پوائنٹ پر بلا کراپنے ہاتھ سے حوالے کرتی ہے تو لڑکا جذبات سے مغلوب ہوکر رونے لگتا ہے لڑکی ان کو کافی دیر دلاستہ دیتی ہے اورپھر ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ جاتی ہے بعد میں کچھ عرصے بعد لڑکا لڑکی کے والد کے پاس آکر معذرت اور رشتے کی بحالی پر زور دیتا ہے یکسر انکار کا جواب ملتا ہے تو پھر والدین کو لے کر آکر معافی کا خواستگار ہوتا ہے مگر دوسری جانب سے اچھے الفاظ میں انکار اور معذرت ہی ہوتی ہے لڑکی لڑکے کے گھر والوں کی معافی توقبول نہیں کرتی مگر لڑکے کو رشتے کے انقطاع کے ساتھ معاف ضرور کرتی ہے یوں اچھے طریقے سے یہ باب بند ہو جاتا ہے بظاہر یہ ایک عام کہانی ہے جواکثر دہرائی جاتی ہے اس سارے دورانیے میں لڑکے کے گھر دو ایسے واقعات ہوتے ہیں جو سبق آموز ہیں ایک یہ کہ جیسے ہی ان کے بھائی کی منگنی ہوتی ہے لڑکی کی منگنی ٹوٹ جاتی ہے دوبارہ بڑی مشکل سے کچھ سمجھوتے کے ساتھ دوسری منگنی ہوتی ہے اور کچھ عرصے بعد وہاں بھی بات بگڑ جاتی ہے اور رشتے سے انکار کا جواب ملتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے ذریعہ معاش کو بڑا دھچکا لگتا ہے اور وہ پہلے کی طرح خوشحال نہیں رہتے خاندانی اراضی تک فروخت کرنے کی نوبت آتی ہے دوسری جانب لڑکی کی بہت جلد بہت اعلیٰ خاندان میں شادی ہوتی ہے اور اچھی ملازمت بھی ملتی ہے عہدہ بھی ملتا ہے اور اسے وہ دورانیہ تک بھول جاتا ہے جو وہ پہلے رشتے سے منسلک ہونے سے لے کرانکار کے عرصے میں گزاری ہوتی ہے ۔ لڑکی بتاتی ہے کہ ان کا والد رات کواٹھ اٹھ کر ان کی ہونے والی نند کے بارے میں اکثر دعا کرتی تھی کہ ان کا رشتہ نہ ٹوٹے اور کسی دوسری جگہ سے اچھا رشتہ آئے وہ اکثر گھر میں بھی کہا کرتے تھے کہ اس بیچاری پر نجانے یہ امتحان کیوں دوبار آیا میرے خیال میں شاید اس وجہ سے کہ ان کے خاندان میں یقینا کچھ ایسی وجوہات اور خامیاں ہوں گی جس کے باعث ان کے دونوں بچوں کے رشتے ٹوٹے یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتی ہوں کہ اولاً کسی کے جذبات اور زندگی سے کھیلتے ہوئے سوچ لینا چاہئے کہ جو بوئیں گے وہی کاٹنا پڑے گا کسی کی بیٹی سے رشتہ مطلوب ہو تو بہتر ہو گا کہ اسے دیکھنے ان کے گھر جانے کی بجائے کسی تقریب اور کسی دیگر بہانے سے دیکھ کر جب مناسب لگے پھر بات چلانی چاہئے لڑکی کو چائے کی ٹرے اٹھا کر سلام کرکے کٹہرے میں لا کر اس کے سراپا کا جائزہ نہ لیاجائے اور لڑکی کو ایک انسان اور خدا کی مخلوق و پیدائشی اورخود کی طرح خوبیوں خامیوں کامجموعہ سمجھا جائے بے جا توقعات ‘ قد رنگ ‘ انداز ‘ اطوار اور بلاوجہ قسم کے جائزوں سے پرہیزکیاجائے ان پر نظر ڈالتے ہوئے اپنی بیٹی اور خاص طور پر اس بیٹے کی خامیوں کا بھی ایک تخیلاتی جائزہ ضرور لیاجائے جن کے لئے رشتہ مطلوب ہے ۔ باقی معاملات طے کرتے ہوئے بلاوجہ کی شرائط رکھنے ‘ جہیز مانگنے اور لڑکی کے خاندان کو زیربار لانے سے گریزکیاجائے نکاح بھروسے اور خلوص سے کرنے کی کوشش کی جائے لالچ طمع اور بلاوجہ کی توقعات نہ ہوں اورمعاملات سادگی اور احسن طریقے سے طے ہوں اس سے رشتے کی کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے جہاں ابتداء ہی سے دوسروں کے جذبات سے کھیلنے اور اپنے لڑکے کی ضد کے سامنے وقتی طور پر مجبور ہو کر آئندہ کے لئے بدنیتی کا قصد دل میں رکھا جائے تو وہ ہوتا ہے جواس کہانی میں ہوا ہو میں نے جان بوجھ کر کہانی میں کچھ خاص چیزیں نظرانداز کرکے کہانی کو عمومی بنا دیا ہے ورنہ تفصیلات میں جائوں تو پھر قدرت کے مزید انتقام کی ایسی کہانی بھی ہے جس سے عمر بھر جان چھڑانا شاید ممکن نہ ہو۔ جیسا کرو گے ویسا بھروگے دوسروں کے لئے گڑھا کھودنے والے خود ہی اس میں گرتے ہیں والا محاورہ صرف محاورہ نہیں کئی کہانیاں اور واقعات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے رشتے ٹوٹتے ہیں اس کے فریقین دونوں ذمہ دار ہوں تو دکھ تو نہیں ہوتا مگر جب والدین اپنے نفسیاتی عوارض کا شکار لڑکے کارشتہ کسی گھر میں اصلیت چھپا کر کریں یا پھر ابتداء ہی سے کسی رشتے کو وقتی طور پرکرتے ہوئے آئندہ کے لئے اور بہانہ تلاش کرکے توڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو پھر سمجھنا چاہئے کہ دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے یہ اس شخص اور اس گھرانے کو پلٹ کر آنا نہیں بھولتی۔

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش