مشکوک شناختی کارڈز کا مسئلہ

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے سب سے اہم مسئلہ ان افراد کوجعلی شناختی کارڈز کی فراہمی کا ہے ‘ اور اب تک جومعلومات سامنے آئی ہیں ان میں صرف خیبر پختونخوا میں 58ہزار پاکستانی شناختی کارڈز کے اجراء پر سوال اٹھ رہے ہیں جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جعلی پاکستانی شناختی کارڈز کی تعداد کا تعین ابھی باقی ہے’ ان 58 ہزار جعلی شناختی کارڈز کے حوالے سے صوبائی محکمہ داخلہ کی سٹیئرنگ کمیٹی نے اپنے اجلاس میں نادرا سے رابطہ کرنے کافیصلہ کرتے ہوئے کریک ڈائون کی تیاریاں شروع کردی ہیں ‘ اس سلسلے میں قصہ خوانی ‘ خیبر بازار ‘ نمک منڈی ‘ کریم پورہ ‘ جناح پارک روڈ سمیت پشاور کے مختلف علاقوں میں گھر گھر سرچ آپریشن کرکے گرفتارافراد کو ایک دو روز میں بیدخل کردیا جائے گا ‘ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتوں کے دوران سعودی عرب کی حکومت نے بھی پاکستانی جعلی پاسپورٹ کے حامل افراد کی ایک بہت بڑی تعداد کے بارے میں حکومت پاکستان کو مکمل دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ معلومات فراہم کی تھیں اورسعودی عرب میں پاکستانیوں کی حیثیت سے مقیم محنت مزدوری کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کیاتھا جبکہ گورنر خیبر پختونخوا نے گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وضاحت کی کہ افغان مہاجرین کے خلاف جو ایکشن ہو رہاہے ‘ اس میں میڈیا کو احتیاط کرنا ہوگی افغانوں کو وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کسی صوبے کا نہیں بلکہ ریاست کا فیصلہ ہے ‘ اوراسے ماننے ہی میں سب کی بہتری ہے جبکہ بلوچستان کے وزیراطلاعات جان اچکزئی نے چند روز پہلے افغان مہاجرین کے وطن واپس بھجوانے کے حوالے سے یہاں تک کہا تھا کہ صرف غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین ہی کوواپس جانا پڑے گا بلکہ وقت آگیا ہے کہ جوافغان مہاجرین اقوام متحدہ کے تحت رجسٹرڈ ہیں اب ان کے بھی واپس جانے کاوقت ہو گیا ہے اور انہیں بھی اب اپنے وطن واپس چلے جانا چاہئے ‘ جہاں تک غیر ملکی افراد کے غیر قانونی طور پرپاکستان میں قیام کا تعلق ہے اس حوالے سے موجودہ حکومت نے جو اقدام اٹھایا ہے اور ان غیر قانونی افراد کی واپسی کے لئے پالیسی پرعمل شروع کیا ہے اس کی ماسوائے چند ایک سیاسی رہنمائوں کے کسی نے بھی مخالفت نہیں کی بلکہ اس اقدام کو عوامی سطح پر جس قدر پذیرائی ملی ہے اس کی مثال اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی ‘ یاد رہے کہ افغان مہاجرین کے انہی کرتوتوں کی وجہ سے پشاور کے عوام نے بالخصوص ماضی میں بھی متعدد باراحتجاج کیا ‘ اور مرحوم ارباب جہانگیر کے دور حکومت میں صورتحال اس قدرسنگین ہو گئی تھی کہ صوبائی حکومت کوبہ امرمجبوری ان مہاجرین کوکیمپوں تک محدود کرنا پڑا تھا اوردو تین مہینے بعد جب صورتحال معمول پرآگئی تھی توان کوپھر شہر کے اندرآنے جانے پر سے پابندی اٹھادی گئی تھی ‘ اصولی طور پر دنیا میں کہیں بھی تارکین وطن مہاجرین کویوں کھلی چھٹی نہیں دی جاتی ‘ مگر ہمارے ہاں کاباوا آدم ہی نرالا ہے ‘ اس سلسلے میں خود ہمارے ہمسایہ ایران میں بھی پناہ لینے والے افغان مہاجرین کو سختی سے کیمپوں تک محدودرکھا گیا اور اگرکسی کام سے ان میں سے کچھ کوباہر نکلنے کی ضرورت پیش آتی بھی تو انہیں مخصوص پرمٹ دے کر کام نمٹانے کے بعد واپس متعلقہ مہاجری کیمپ میں رپورٹ کرنے کاپابند رکھا گیا ‘ جبکہ ہماری صورتحال اس کے برعکس ہے اور نہ صرف افغان مہاجرین کو ملک کے کسی بھی حصے میں آنے جانے کی مکمل چھوٹ ملتی رہی ہے بلکہ اس صورتحال کاناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی اداروں میں موجود مٹھی بھرکالی بھیڑوں کی مدد سے انہوں نے نہ صرف جعلی شناختی کارڈز حاصل کئے بلکہ انہی کی مدد سے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرکے دنیا کے مختلف ممالک میں جا کر بھی پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ‘ اب جبکہ خیبر پختونخوامیں58 ہزار جعلی شناختی کارڈزکو مشکوک قرار دے کر ان کے حامل غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا ہے توجن لوگوں نے جعلسازی یا دیگر ذرائع سے یہ جعلی شناختی کارڈز بنوا رکھے ہیں ان کے خلاف اقدام ہر لحاظ سے جائز تو ہے تاہم اس حوالے سے حد درجہ احتیاط کی بھی ضرورت ہے کہ حقیقی پاکستانی باشندوں کے شناختی کارڈز بلاک کرکے ان کو پریشانی سے دوچار کرنے سے احتراز کیا جائے ایسی شکایات ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہیں بلکہ کئی لوگ تو اپنے بلاک شدہ شناختی کارڈز کو واگزار کرانے کے لئے عدالتوں سے رجوع پر بھی مجبور ہوتے رہے ہیں اور اسی مسئلے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جن لوگوں کوجعلی شناختی کارڈز جاری کئے گئے ان کے اجراء میں ملوث نادرا کے متعلقہ اہلکاروں اور افسروں کے خلاف جب تک سخت تادیبی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا یہ سلسلہ شاید مکمل طور پر رک نہ سکے اور ادارے میں موجود کالی بھیڑیں اسی طرح غیر قانونی طور پرمقیم افراد کو پاکستانی شناختی کارڈز جاری کرنے سے باز نہیں آئیں گی یہ الگ بات ہے کہ جعلی دستاویزات کی ”قیمت” میںاضافہ ہوتا رہے گا اس لئے پہلے اپنے گھر کو درست کرنے پر توجہ دی جائے توآنے والے دنوںمیںایسی صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔

مزید پڑھیں:  تنگ آمد بجنگ آمد