گیس ندارد کمپریسرز کی بہتات

پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کا بحران اور سردیوں میں گیس کا بحران نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں اب تو دونوں کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ ماہانہ آمدنی کا خاصا حصہ اس کے لئے مختص کرنا مجبوری بن گئی ہے خدشہ ہے کہ ان کے بھاری بلوں کی ادائیگی کی استطاعت نہ ہونے کے باعث صارفین کی ایک بڑی تعداد ان کا استعمال ہی ترک کرنے پر مجبور ہو ملک میں آمدہ سردیوں میں جہاں ایک طرف ناقابل برداشت حد تک گیس کے بلوں میں اضافہ ہوا ہے وہاں دوسری جانب اس کی ناپیدگی کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے کم ہی علاقوں کے گیس صارفین ہوسکتے ہیں جن کی شکایت نہ ہو ورنہ خیبر پختونخوا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں گیس کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی فراہمی کے اوقات میں بھی گیس نہ ملنے اور پریشر نہ ہونے کے برابر ہونے کی شکایت نہ ہو ۔ اس بارے میری حیات آباد کے ایک مکین سے گفتگو ہوئی جنہوں نے بتایا کہ حیات آباد کے بعض فیزز میں تو گیس کی شدت کا مسئلہ ہر سال کی سردیوں کا ہے البتہ ان کے علاقہ فیز سکس میں نسبتاً گیس کی فراہمی کا جزوی مسئلہ تو رہا لیکن کوئی سنگین صورتحال نہیں رہی البتہ بعض سٹریٹس میں گیس کا نہ آنا صرف سردیوں کے ماہ کا ہی نہیں گرمیوں کا بھی مسئلہ ہے اس کی ایک وجہ شاید ان گلیوں کے بعض گھروں میں کھلے ہوئے وہ باورچی خانے ہیں جہاں گیس کا دن بھراور رات گئے کمرشل استعمال ہے جہاں خوراک تیار کرکے نواب مارکیٹ اور اس کے آس پاس کی گلیوں و خالی پلاٹوں میں بڑے پیمانے پر فروخت ہے معلوم نہیں کہ یہ ملی بھگت ہے یا نہیں ملی بھگت کے بغیر ایسا ممکن اس لئے نظر نہیں آتا کہ گھر میں اگر ہزاروں روپے کی گیس استعمال ہو اور مسلسل ایسا ہو رہا ہو تو پھر محکمے والوں کو جا کر دیکھ لینا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے نیز ان گھروں میں کمپریسر کا بھی باقاعدہ مسلسل استعمال آس پاس کے گھروں میں بالخصوص اور پورے علاقے میں بالعموم گیس کی کمی اور پریشر کے متاثر ہونے کا باعث ہوتا ہے ۔ یہ صرف ایک علاقے کی مثال دی گئی وگر نہ گھریلو صارف کے طور پر گیس حاصل کرکے کمرشل استعمال ہر جگہ ہو رہا ہے جس کا نوٹس نہ لینا خود محکمے کے خسارے کا باعث بن رہا ہے ۔ بہرحال ملک میں برسوں سے گھریلو اور تجارتی صارفین کو موسم سرما میں گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کوگیس کی فراہمی میں کمی کر دی جاتی ہے تو دوسری جانب صنعت و تجارت کو گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے ملک میں گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جہاں مقامی طور پر گیس کی پیداوار ہوتی ہے وہاں درآمدی گیس بھی سسٹم میں شامل کر دی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ملکی ضروریات کے لئے کافی نہیں تشویش کی بات یہ ہے کہ ملکی گیس کے ذخائر میںمسلسل کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے گھریلوصارفین ہوں یا تجارتی صارفین کمپریسر نصب کرکے گیس کھینچنے کا خطرناک اور ناانصافی پرمبنی عمل کرتے ہیں صارفین اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے غیر قانونی طور پر کمپریسر لگاتے ہیں جو دوسروں کے حصے کی گیس بھی کھینچ کر ان کے گھر منتقل کردیتے ہیں ممانعت اور سخت تنبیہ کے باوجود یہ عمل دھڑلے سے جاری ہے گھریلوصارفین کی مشکلات کا خاص طور پر تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ وہ ناشتے اور کھانے کے اوقات کو طول نہیں دے سکتے سالن اور روٹیاں بنا کر رکھنے کی گنجائش ضرور ہے لیکن گیس پریشر کی کمی مسلسل ہو تو یہ بھی ممکن نہیں ہوتا ناشتہ کے وقت سکول اور دفتر جانے کی جلدی ہوتی ہے اور صبح سویرے اس سردی میں خالی پیٹ گھر سے نکلنا پڑتا ہے جس کا نہ تو کمپریسر لگانے والوں کو احساس ہے اور نہ ہی محکمے کو ان کے خلاف کارروائی کی فرصت ہے نتیجے میں صارفین جس بری طرح متاثر ہو رہے ہوتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ ایک جانب جہاں گیس کے بھاری بل آنے لگے ہیں وہاں دوسری جانب سلینڈرز کے استعمال سوختی لکڑیوں اور بجلی سمیت دیگر متبادل ذرائع کے بامر مجبوری استعمال کے باعث صارفین کا بوجھ مزید بھاری ہو جاتا ہے اور بلائوں کے خانہ انوری کا گھر دیکھنے کے مصداق صورتحال سے دو چار ہو رہے ہیں ۔ گھریلوصارفین کو گیس کی سپلائی و پریشر میں کمی کے ساتھ کمپریسر کے استعمال کے باعث جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا حل ا تنا مشکل نہیں حکام تھوڑی سی توجہ دے کراس کے استعمال کا تدارک کر سکتے ہیں کسی علاقے میں کمپریسرز کے استعمال کا پتہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے جس طرح پیسکو کا ٹرانسفارمر ہوتا ہے گیس کا بھی اسی طرح کا ٹائون بارڈر سٹیشن ہوتا ہے اس کی نگرانی سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں پائپ میں گیس کا بہائو تیز ہو گیا ہے یعنی گیس پوری قوت سے کھینچی جارہی ہے محکمے کے اہلکار اس سمت جا کر ہر گھر کے میٹر چیک کر لیں توخود بخود معلوم ہو جاتا ہے کیونکہ جس گھر میں کمپریسر کا استعمال ہو رہا ہو اس گھر کا میٹر بڑی تیزی سے چلتا ہے اہلکار باآسانی اس گھر جا کر کمپریسر اتار سکتے ہیں کیونکہ غیر قانونی عمل کی روک تھام ان کی ذمہ داری ہے خیبر پختونخوا کے روایتی معاشرے کے تناظر میں زیادہ سے زیادہ اس درجہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ خواتین اہلکاروں سے یہ کام لیا جائے تاکہ پردے کی خلاف ورزی اور چادرو چاردیواری کے تقدس کی خلاف ورزی کا الزام نہ لگے۔ ایسے صارفین کے گیس کا کنکشن منقطع کرنے اور اس پر جرمانہ عاید کرکے دوبارہ میٹر لگاتے ہوئے ضمانت اور یقین دہانی حاصل کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے اور یہ عمل چند روز سنجیدگی سے کیا جائے اور علاقے کے صارفین کو اس کا علم ہو جائے کہ کمپریسر کا استعمال خطرے سے خالی نہیں تو وہ خود بخود گریز کرنے لگیں گے نیز گیس کمپریسر کے استعمال کے باعث ہونے والے حادثات کے حوالے سے بھی مسلسل شعور اجاگر کیاجائے توبھی محتاط صارفین اس کے استعمال سے بازآئیں گے ۔ محکمے کی جانب سے اقدامات نہ ہونے کے باعث کمپریسر کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اس ایک ماہ کے دوران کمپریسر کی دھڑا دھڑ فروخت کے باعث اس کی قیمتیں دوگنی ہو گئی ہیں پولیس کی سرپرستی کے باعث گلی کوچوں اورمارکیٹوں میں کھلے عام سیلنڈرکے غیر محفوظ بھرنے اور ذخیرہ کرنے کا عمل جس طرح جاری ہے وہ پورے شہر میں بم اور تابوت اکھٹے رکھنے کاعمل بن گیا ہے گیس بھرتے ہوئے عدم احتیاط سے غیر محفوظ طریقے طور پر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی طرف تو کسی کی توجہ ہی نہیں اور نہ ہی اس کا کسی کو احساس ہے شاید ہمارے حکام کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا گاڑیوں میں لگے غیر معیاری سلینڈر بھی ہر گاڑی کو تابوت کا درجہ دیئے ہوئے ہیں اسی طرح غیر معیاری اور خطرناک چولہوں کی فروخت کی روک تھام کی طرف توجہ بھی ضروری ہے ۔
محولہ بالا عوامل ایک دوسرے سے جڑے اور پیوست مسائل ہیں جوں جوں یہ بحران بڑھے گا محولہ اشیاء کا استعمال اور خطرات میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا آنے والے وقتوں میں توگیس کا کنکشن ہی نہیں ملے گا اور گھر گھر سیلنڈروں کا ہی استعمال ہو گا اس لئے ہر حوالے سے جائزہ لیتے ہوئے لوگوں کو اس حوالے سے تیار کرناپڑے گا بنا بریں حکومت کو اقدامات پر فوری اور ساتھ ساتھ طویل المدت اقدامات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے ناکہ آنکھیں بند کرکے اس وقت کا انتظار کیا جائے جب پانی سر سے اونچا ہو جائے اور کچھ نہ بن پڑے۔

مزید پڑھیں:  اب نہیں تو کب ؟