انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے منشور

ملک میں عام انتخابات کی گہما گہمی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی سیاسی جماعتوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے آئندہ پانچ سال کے دوران اپنا اپنا پروگرام عوام کے سامنے رکھتے ہوئے اپنے اپنے منشور پیش کر دئیے ہیں جبکہ چھوٹی جماعتیں بھی کسی نہ کسی طور عوام کے ساتھ وعدے وعید کرتی دکھائی دے رہی ہیں ،پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ”پاکستان کو نواز دو” کہ ٹائٹل کے ساتھ انتخابی معرکے کا آغاز کرتے ہوئے نیب کے خاتمے، ایک کروڑ نوکریاں، مہنگائی میں کمی ،چھوٹے کسانوں کیلئے بلا سود قرضے، پارلیمنٹ کی بالادستی، آئینی، قانونی، عدالتی اور انتظامی اصلاحات کا وعدہ کرتے ہوئے کمرشل عدالتوں کا قیام، بجلی بلوں میں 20 سے 30 فیصد کمی کرنے اور برآمدات کا ہدف 60 ارب ڈالر تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے جبکہ خطے کے امن کیلئے باہمی احترام کی بنیادوں پر بھارت سے تعلقات استوار کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے، دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے عوامی معاشی معاہدہ کے نام سے انتخابی منشور جاری کر دیا ہے پیپلز پارٹی کے منشور کا سلوگن”چنو نئی سوچ” ہے ،انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ اجرت پر کام کرنے والوں کی حقیقی آمدن کودوگنا کیا جائے گا ،غریبوں ،بے زمینوں اور محنت کشوں کو رہائشی مکان دئیے جائیں گے، بھوک مٹاؤ پروگرام شروع کیا جائے گا اور تمام سکول جانے والے بچوں کو مفت کھانا فراہم کیا جائے گا جبکہ ہاری کسان کارڈ اور مزدور کارڈ جاری کیا جائے گا، منشور میں کہا گیا ہے کہ مزدور کارڈ کے ذریعے لوگ اپنے بچوں کیلئے سکول فیسوں کی ادائیگی جبکہ اپنے اور خاندان کیلئے ہیلتھ انشورنس حاصل کر سکیں گے ،فصلوں کا انشورنس ہوگا اور ہاری کارڈ کے ذریعے ڈی اے پی اور یوریا کھاد پر سبسڈی دی جائے گی، وسیلہ حق پروگرام کے ذریعے غریب خواتین کو چھوٹے قرضے فراہم کئے جائیں گے، پیپلز پارٹی کے منشور میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں کو یوتھ کارڈ جاری کیا جائے گا جس کے ذریعے تعلیم یافتہ نوجوان مرد اور خواتین کو ایک سال تک وظیفہ دیا جائے گا ،پاکستان کے ہر ضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی قائم کی جائے گی ،اسی طرح صحت کی مفت سہولیات ،امراض قلب ،جگر اور گردوں کے امراض کا مفت علاج فراہم کیا جائے گا، جہاں تک دیگر نسبتاً چھوٹی جماعتوں جمعیت علماء اسلام ،جماعت اسلامی، اے این پی ،ایم کیو ایم ،قومی وطن پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی ،بلوچستان سے متعلق سیاسی جماعتوں اور دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں نے باقاعدہ منشور تو جاری نہیں کئے البتہ ان جماعتوں کے رہنماء جلسوں اور ریلیوں وغیرہ میں اپنی اپنی پارٹیوں کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے پروگرام پیش کرنے میں بڑی جماعتوں سے پیچھے نہیں ہیں ،البتہ سابق حکمران جماعت تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان ”بلا” چھن جانے کے بعد بحیثیت ایک جماعت کے انتخابی میدان میں اس کے امیدواران کسی ایک نشان پر نہیں بلکہ آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انفرادی انتخابی نشانات کے ساتھ موجود ہونے کی وجہ سے ان کا انتخابی منشور بھی موجود نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ پانچ سال پہلے تحریک انصاف نے جو انتخابی منشور پیش کر کے جو وعدے وعید کئے تھے بعد میں ایک ایک کر کے ان سے یوٹرن لیتے ہوئے وعدہ خلافی کی ایک تاریخ رقم کی تھی، اس لئے اگر وہ اب کی بار بحیثیت ایک جماعت انتخابی میدان میں اتر کر ایک بار پھر وعدوں کی پٹاری کھولتی تو اس پر اعتبار کس نے کرنا تھا؟ تاہم اب کی بار ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے اپنے اپنے منشور پیش کرتے ہوئے جن امیدوں کے دئیے روشن کئے ہیں یا عوام کو ”سبز باغ” دکھائے ہیں انتخابات کے بعد ان میں سے کتنے وعدوں کی تکمیل کرتے ہوئے محولہ جماعتیں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتی ہیں کیونکہ خوش کن وعدوں کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ معروضی حالات اور ملک کے اقتصادی اور معاشی معاملات ہیں اور اس وقت جن حالات سے یہ ملک گزر رہا ہے کیا ان حالات میں دونوں بڑی پارٹیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ جماعتیں حقیقی معنوں میں اپنے منشور کے مطابق عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو سکیں گی؟ اگرچہ ہم دیگر تمام پاکستانیوں کی طرح دست بہ دعا ہیں کہ یہ جماعتیں جو وعدے کر رہی ہیں ان کو پورا کرنے میں اپنی پوری صلاحیتیں استعمال کر کے کامیابی حاصل کر لیں تاکہ ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  آزاد کشمیر میں پرتشدد مظاہروں کا پس منظر