احتجاجی دھرنوں کی سیاست

ملک میں عام انتخابات کے بعد سامنے آنے والے نتائج پر کامیاب اورناکامی سے دو چار کئی سیاسی جماعتوں نے نہ صرف سوال اٹھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بلکہ احتجاج کا ڈول ڈالتے ہوئے دھرنوں کا اہتمام کرنے کے حوالے سے بیانئے بھی سامنے آرہے ہیں وگزشتہ روز پشاور میں پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنے نے ٹریفک جام کی جوبدترین شکل اختیار کی اور شہر کی تمام اہم شاہراہوں پرمیلوں لمبی قطاریں لگنے کی وجہ سے عام ٹریفک کیساتھ ساتھ ایمبولینس گاڑیوں کو بھی راستہ نہ مل سکا ‘ اس سلسلے میں فیز تھری چوک ‘پیر زکوڑی پل اور موٹروے پر احتجاجی مظاہروں سے مسافر گاڑیوں کے اندر مقید ہو کر رہ گئے ‘ پی ٹی آئی گزشتہ کئی روز سے پشاور موٹروے ٹول پلازہ پراحتجاج کرکے ٹریفک نظام کو معطل کرنے میں مصروف ہے اور اب نہ صرف اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمن گروپ) کی جانب سے بھی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کرنے کے حوالے سے بیانات سامنے آرہے ہیں ‘ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں بھی انتخابی نتائج پر سوال اٹھا رہی ہیں یہاں تک کہ پی ٹی آئی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اپنا مینڈیٹ”چرانے” کے الزامات لگا رہی ہے جبکہ لیگ (ن)بھی الزامات لگانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ‘ یہی حال جماعت اسلامی ‘ بی این پی (مینگل) پشتونخوا میپ ‘ سندھ کی قوم پرست تنظیموں ‘ ایم کیو ایم ‘ غرض تقریباً تمام سیاسی اور علاقائی جماعتوں کا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی ان نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ‘ جبکہ اس سے پہلے ملکی سیاست میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابات کے بعد ہر طبقہ فکر انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بیک جنبش قلم نتائج کو مسترد کرنے پر کمربستہ ہوا ہو’ گزشتہ انتخابات میں اس قسم کے احتجاج سامنے ضرور آتے رہے ہیں تاہم آہستہ آہستہ کہیں پر الیکشن کمیشن سے رجوع کرکے اورکہیں عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاکر یہ سلسلہ معدوم ہو جاتا’ مگر اب کی بار ایسا لگتا ہے کہ یہ سلسلہ آسانی سے تھمنے والا نہیں ہے جس کا نقصان ملک میں پارلیمانی سیاست کو پہنچنے کا احتمال ہے ‘ اگر احتجاج کا یہ سلسلہ یونہی دراز رہا اور اس میں بعض عاقبت نااندیش سیاسی قیادتوں کی ضد ‘ انا اور ہٹ دھرمی جاری رہی تو ملک میں سیاسی استحکام کے قیام کے امکانات دھندلا جانے کے خطرات بڑھ جائیں گے ‘ ملک پہلے ہی اقتصادی اور معاشی طور پر مشکلات سے دو چار ہے ‘ جبکہ آئی ایم ایف نے اپنا شکنجہ تیز کر رکھا ہے اور آئندہ مارچ کے اوائل میں مذاکرات میں مزید سختیاں لانے کے حوالے سے خبریں گرم ہیں ،موجودہ نگران حکومت نے ابھی سے عوام پر مہنگائی مسلط کرنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے اور تازہ ترین بوجھ گیس اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کی صورت عوام کوعذاب سے دو چار کرنے کے حوالے سے سامنے آنے والی اطلاعات ہیں جبکہ گزشتہ روز گیس کے جو بل عوام کوبھیجے گئے ہیں ان کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور اگر نرخوں میں مزید اضافہ ہو ا(جو یقینا ہو گا) تو عوام کی حالت کیا ہوگی اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے ‘ ایسے میں اگر سیاسی احتجاج جاری رہا اور آنے والی حکومت کے خلاف دھرنوں کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال جاری رہی تو سیاسی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا ‘ اس صورتحال سے نکلنے کی راہ ڈھونڈنے کے لئے انتخابی عمل پر اٹھتے سوالوں کی حقیقت جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن قائم کرکے اٹھنے والے تمام سوالوں کا جواب تلاش کیا جائے ،موجودہ نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی سفارش کریں جوتمام سوالوں کے جواب تلاش کرکے اس مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کریں ‘ تاکہ ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہوسکے ۔

مزید پڑھیں:  اساتذہ کی جان خطرے میں