مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی طویل اور بدترین لوڈشیڈنگ کے حوالے سے سخت بیانات اور وفاق کو صریح الفاظ میں پیغام اور پیسکو کی ایک دن کی عارضی یقین دہانی کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ میں اضافہ پرمسلسل احتجاج ہو رہے ہیں اور اس کی شدت میں اضافہ کا بھی خطرہ ہے خاص طور پر آزاد کشمیر میں احتجاج کے نتیجہ خیز ہونے کے بعد اب یہ سوچ تقویت پکڑ رہی ہے کہ عوام اگرمیدان عمل میں نکل آئیں تو حکومت سے رعایت اور مسئلے کا حل دونوں ناممکن نہیں بجلی کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں عوامی سوچ اس بناء پر بھی مختلف ہے کہ صوبے میں اس کی ضرورت سے کہیں اضافی سستی آبی بجلی پیدا ہوتی ہے جس کی رائلٹی کی رقم صوبے کو احسن طریقے سے ادا کی جاتی ہے اور نہ ہی کم از کم اتنی بجلی جو خود ایک تقسیم کے تحت خیبر پختونخوا کا کوٹہ مقرر کیاگیا ہے اس کی فراہمی بلا رکاوٹ وکٹوتی ہوتی ہے یہ ساری صورتحال تنگ آمد بجنگ آمد ہی کی جانب بڑھ رہی ہے ایسے میں صوبے میں احتجاج در احتجاج اور اس میں شدت کے خدشات بے جا نہیں۔ تاجر برادری نے فوری بجلی لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لئے اقدامات نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کا دائرہ وسیع کرنے کی دھمکی دی ہے اس ساری صورتحال میں جہاں بجلی کی طلب او رسد میں عدم توازن کے با عث لوڈ شیڈنگ کے بغیر کوئی چارہ نہیں ایسے میں سولر سسٹم لگاکر گرڈ کو بجلی دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے مگر یہاں الٹا ان کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے مزید برآں گراس میٹرنگ کے حوالے سے حکومت کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو یقین دہانی ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کے متعلق سوالات کو بھی جنم دیتے ہیںاس فیصلے سے جہاںپاکستان میں قابل تجدید توانائی کے فروغ میں ہونے والی پیش رفت کو نقصان پہنچنے اور شمسی توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کا خدشہ ہے وہاں اس کا نتیجہ پاکستان کی ان کوششوں کے متاثر ہونے کی صورت میں بھی نکلے گا جو وہ موسمیاتی تبدیلی کے اہم مسئلے سے نمٹنے کے لئے کررہا ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ حکومت اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور ایسی پالیسیوں کو ترجیح دے جو افراد اور چھوٹے کاروباروں کے ذریعے پائیدار توانائی کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوں ۔یہ امر بھی کم تشویشناک نہیں کہ ملک کی پاور بیوروکریسی کی مبینہ کرپشن اور نااہلی بہت مہنگی ثابت ہو رہی ہے۔ نئے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کو 2.31 ٹریلین روپے سے کم رکھنے میں ناکام رہی ہے جیسا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق کیا گیا ہے، رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں قرضوں کا ذخیرہ 325 بلین روپے سے بڑھ کر 2.64 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے متعدد دوروں کے باوجود گردشی قرضے میں مسلسل اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکام نے ابھی تک اصل مسائل کو حل کرنا شروع نہیں کیا ہے۔ قرضوں کے ذخیرے میں اضافے نے حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے جولائی سے بیس سے سات روپے فی یونٹ اضافے کا وعدہ کرے تاکہ آئندہ مالی سال میں گردشی قرضوں کی نمو کو روکا جا سکے۔رہائشی صارفین، خاص طور پر درمیانی آمدنی والے گھرانے، پاور سیکٹر کی عجیب وغریب منطقی فیصلوں اور اقدامات کا سب سے بڑا شکار ہیں کیونکہ وہ چوری، سسٹم کے نقصانات، طاقتور کاروباری لابیوں کے لیے سبسڈی اور اس طرح کی ادائیگیوں پر مجبور ہیں اور ان کو ہر یونٹ مہنگی ملتی ہے ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق گھریلو صارفین کے لیے فی یونٹ بجلی کی قیمت 62روپے ہے جو کہ پہلے سے ہی موجودہ بنیادی ٹیرف سے دوگنا ہے جس کی بدولت مختلف قسم کے قیمتوں میں اضافے اور بنیادی ٹیرف سے زائد بجلی کے نرخوں میں شامل ٹیکسوں کی وجہ سے یہ بڑی ا کثریت کے لئے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت ہیں۔ بڑی اکثریت کے لیے۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ شہری نہ صرف جولائی سے زیادہ بنیادی ٹیرف ادا کریں بلکہ وہ اخراجات بھی برداشت کریں جو انڈسٹری ٹیرف میں نمایاں کمی کے نتیجے میں ہوں گے۔ یہ ہمیشہ کے لیے نہیں چل سکتا۔ حال ہی میں ہم نے آزاد کشمیر میں بجلی کی قیمتوں پر پرتشدد مظاہرے دیکھے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ملک کے مختلف حصوں میں بدامنی کو بھڑکا سکتا ہے، کیونکہ مہنگائی اور حقیقی اجرتوں میں کمی کی وجہ سے عام لوگوں کی آمدنی اب ان کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہے۔ بجلی کی قیمت میں اضافے سے بجلی چوری میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ قیمتوں میں اضافہ غیر نتیجہ خیز ہے جیسا کہ ماضی کے تجربے اور گردشی قرضوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔ ہماری بجلی کی پریشانیوں کا حل بجلی کی قیمتوں اور قرضوں میں اضافے کے محرکات کو ٹھیک کرنے کے لیے حقیقی اصلاحات کے نفاذ میں مضمر ہے۔

مزید پڑھیں:  بوجھ ہی بوجھ