محنت ہی حل ہے

وفاداری اس وقت سہل ہوتی ہے جب خون میں جسم و جاں میں شامل ہو جائے اسے کسی سوال جواب کی ، کسی منطق کی حاجت نہ رہے ، اسے اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے کوئی حجت نہ کرنی پڑے وہ جہاں قدم دھرے خود بخود راستہ کھلتا چلا جائے ۔ یہ وفاداری اور ایسا جذبہ کبھی یکطرفہ نہیں ہوتا ۔ اس کے لئے رابطے اہم ہوتے ہیں دو طرفگی اہم ہے کیونکہ جذبے ہمیشہ جذبوں کا ہاتھ تھامتے ہیں ، ا نہی کی زبان بولتے ہیں ۔ اس ملک سے وابستگی ، محبت اس سے وفاداری بھی ایسا ہی جذبہ ہے ۔ ایسے ہی وہ ہمارے خون ہمارے جسم و جاں میں شامل رہی ہے ۔اسے کبھی کسی منطق ، کسی توجہہ کا ہاتھ نہیں تھامنا پڑا میں نے ، میرے جیسے اور کئی لوگوں سے اس ملک سے اس کے نام سے محبت کی ہے ۔ اس ملک کے مفاد کو برتر سمجھا ہے ہمیں سکھایا گیا تھا کہ اس ملک سے ہماری پہچان ہے ہمارے دادا دادی ، نانا نانی نے ہمارے بچپن میں ہمیں ہجرت کی کہانیاں سنائی تھیں اور ان کے لہجوں کے خوف میں ہمارے ننھے کانوں نے ان قدموں کی دھمک کا خوف محسوس کیا جو تاریک گوشوں میں ڈر سے کانپتی عورتوں نے محسوس کیا تھا جب ہندو اپنے ہی دوستوں کی گھروں پر حملے کر رہے تھے ۔ اس خوف سے نجات کا سکون اس ملک سے محبت اور وفاداری کی زمین تھا ۔ ہمارے آباء نے اس زمین میں اس ملک سے وفا کا بیج بویا اور ہم اسی کی چھائوں میں پلتے رہے لیکن اب جبکہ ہم جانتے ہیں کہ خود ہماری ہی سیاسی ترجیحات نے اس ملک کو ا پنی بقاء کی ابتلاء میں مقید کر دیا ہے ہم میں سے اکثر اپنے بچوں کے اس ملک میں مستقبل کی صبح پر یاس کا گرہن دیکھتے ہیں تب بھی ہمیں اکثر رہتی غلطیوں کا کوئی احساس نہیں ۔میں نے کئی بار ایک ٹھنڈی آہ کے ساتھ یہ جملہ سنا ہے کہ ہم نے تو ساری زندگی اس ملک سے محبت کی ، اس سے وفا کی ، اس کے لئے کام کرنے کو اپنا فرض سمجھا لیکن اب اس ملک کے دامن میں ہمارے بچوں کے لئے کوئی روشن صبح ہی باقی نہیںمیں نے تو اپنے بچوں کو کہا تھا کہ باہر پڑھنے بھی جائو تو لوٹ کر اپنے ہی ملک میں آنا اسی کی خدمت کرنا لیکن یہاں تو اب کوئی قانون باقی نہیں یہاں اب صرف سیاستدانوں اور طاقتوروں کی لوٹ کھسوٹ کے نشان باقی ہیں ۔ یہ ساری یاسیت اپنی جگہ لیکن ہم ہی یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم نے بحیثیت قوم نوابزادہ نصر اللہ کو ووٹ نہیں ڈالا ، کبھی اصغر خان سے محبت نہیں کی کبھی مولانا مودودی یا قاضی حسین احمد کے ہاتھ میں اس ملک کی باگ ڈور نہیں تھمائی ۔ ہم نے ہمیشہ مل کر نواز شریف کو حکومت دی ہے ، آج بینظیر بھٹو کے دنیا میں نہ ہونے کے باعث بہت سی باتیں نہیں کی جا سکتیں یا یوں کہئے کہ مناسب نہیں لگتیں لیکن ماضی میں کیا ہوا ، کس نے کیسے اس ملک کے مفاد کے سودے کئے ، اس میں سے کوئی بھی بات ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ آج بھی سندھ میں قانون کی بد ترین حالت کیوں ہے اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے ، میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم کن باتوں کے ذمہ دار رہے ہیں یہ کیسے بھلایا جا سکتا ہے ۔ انہی سیاستدانوں میں خواہ ان کے ہاتھوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کا علم ہو وہ بھی ہیں جس پر اس ملک کی نوجوان نسل میں منشیات پھیلانے کے الزامات لگتے رہے کچھ ایسے تھے جن کے بارے میں ڈارک ویب(Dark web) سے وابستگی کا شک بھی تھا مالی بدعنوانی ، کرپشن کک بیک(Kick Back) ملک دشمنی یہ تو ایسی باتیں ہیں جو یہ سیاست دان برائی بھی نہیں گردانتے ۔ پی ٹی آئی کا ظہور ہوا تو غلطیاں کرنے والی قوم سمجھی کہ ہمیں مسیحا مل گئے لیکن صنم خانے سے مسیحا کا ظہور معجزہ ہوتا ہے اور اس کے بھی قابل ہونا پڑتا ہے ، جو گناہ خود کریں معجزوں اور مسیحائی کی امیدیں انہیں رکھنے کی کیا ضرورت!! پی ٹی آئی بدعنوان تھی یا نہیں ، اس کی کسوٹی ابھی پائے انجام کو نہیں پہنچی لیکن نااہل اور بدزبان بہت تھی ، سو اس ملک کو ا ن سے بھی فائدہ نہ ہو سکا اور اب ہم اس تصویر کی صورت ہیں جوکبھی ایتھوپیا کے قحط کی مجسم عورت تھی ۔ ایک لاغر بچہ زمین پر پڑا مر رہا ہے اور سامنے ہی گدھ بیٹھے اس کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہمارا دشمن محض بھارت ہی کہاں ہے ، ہمارے دشمن تو وہ بھی ہیں۔قرض کے جال میں ہم الجھے ہیں یہ قرض ہی تو ہے جس کے باعث یہ حکومت نجکاری کے اعلانات کئے جاتی ہے اور حکومتی اثاثوں کو گروی رکھ کر سکوک جاری کیے جارہے ہیں ۔ وہ جنہوں نے اورنج ٹرین کے نام لے کر چھاتی ٹھونکی ، وہ جنہوں نے خیبر میں بنا فیڈر روٹس کے اربن ٹرانسپورٹ پلان کی وہ جو سندھ میں جانے کس کس نام کی بسیں چلاتے ہیں یہ قرض تو انہوں نے لئے اور ہم مجرم ہیں کہ ہم نے کبھی ان سے یہ نہ پوچھا کہ وہ بہ سب کس کے لئے کر رہے تھے ۔کبھی کسی کا احتساب ان باتوںپر نہ ہوا جس پر انہیں قرار واقعی سزائیں ہوسکتی تھیں ۔ کب کس نے کتنے کک بیک پر آلو درآمد کئے ، کب گندم درآمد ہوئی ، کب صرف کسی ایک گروپ کی مشینوں کی درآمد کے لئے صبح ایس آر او جاری ہوا کہ ڈیوٹی نہ لگے اور شام کو واپس لے لیا گیا ، کب کس نے کہاں اپنا حصہ رکھا ، کون مسٹر ٹین پرسنٹ تھا اور مطمئن نہ تھا اور دوبارہ مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ کے نام سے مشہور ہوا اور ان سب باتوں کے باوجود ہم نے انہیں ووٹ دیئے ۔ ہم نے کبھی اپنا نقصان محسوس نہیں کیا تو اب اس یاسیت کی کیا ضرورت کہ اس ملک میں ہمارے بچوں کا کوئی مستقبل باقی نہیں رہا ۔ یہ تو ہم نے خود کیا ، اپنے بچوں کے لئے ہم نے انہی جیسے لوگوں کو منتخب کرنے کے ساتھ ہی سارے راستے مسدود کر دیئے تھے ۔اب اس واویلے کا فائدہ نہیں ۔ اب بھی اگر ہم چاہیں تو اپنے بچوں کے لئے معاملات میں درستگی کا سامان کرسکتے ہیں۔ آج محنت ہی نہیں قربانی بھی مانگتا ہے ، اس آج اور اس کا کل ، اس کے لئے صرف اپنے حصے کا کام کریں ۔ ہم میں سے کسی کو محنت کی عادت نہیں رہی ، کام کی عادت نہیں رہی ، بس اسی کی عادت ڈال لیجئے ، یہ بھی ہم اپنے بچوں کے لئے کر سکتے ہیں ، اس کے علاوہ اب کوئی راستہ نہیں۔

مزید پڑھیں:  آئی ایم ایف کی فرمائشی بجٹ