گرم تعاقب کی دھمکی

وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے تحت ضرورت پڑی تو کالعدم تنظیم کی سرحد پار پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے کو اپنے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ عزم استحکام کی پالیسی کوئی جلد بازی میں نہیں آئی ہے، اس کا پس منظر ہے، حالیہ مہینوں میں دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں ہوسکتے، کوئی ایسا گرائونڈ موجود ہی نہیں جس کی بنیاد پر بات چیت کی جائے۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے طالبان سے مذاکرات کے مطالبے کے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے مذاکرات کے بعد جن 4سے 5ہزار طالبان کو واپس لاکر بسایا ہے کیا ان سے کوئی توقعات پوری ہوئی ہیں؟ اگر وہ تجربہ کامیاب رہا تو ہمیں بتایا جائے تاکہ ہم ان کی تقلید کریں۔خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کیونکہ وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی ایکسپورٹ ہو رہی ہے اور ان کے سلیپر سیلز کے 4سے 5ہزار وہ اراکین سابق وزیر اعظم کے حکم پر واپس لائے گئے وہ پاکستان میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن ہمارا اندرونی معاملہ ہے، ہمیں ملک میں امن قائم کرنا ہے، ہمارے امن سے ہمارے دوستوں کو خوشی ہوگی، لیکن بنیادی طور پر اس کے مقاصد تو ہمارے اپنے ہیں۔دہشتگردی کے با عث وطن عزیز کو جن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے چونکہ مشکلات کاوہ دور ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے ہر کسی کو اس کا بخوبی علم ہے کہ ان عناصر کے ہاتھوں ملکی سلامتی امن و امان و معیشت اور دنیا کے ممالک سے تعلقات سیاحت اور خصوصاً سرمایہ کاری کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ مختلف ادوار میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک فیصلہ کن مرحلے کا آغاز کیا جائے جسے عزم استحکام کا نام دیا جائے اب اس کہانی کا اختتامی باب ہر قیمت پر لکھنے کی ضرورت ہے اس کی سیاسی و عوامی مخالفت بھی موجود ہے اس لئے اس حوالے سے بہتر ہوگا کہ اس ضمن میں موجود تحفظات کو دور کرکے ایک قومی ماحول بنا کر حقیقی معنوں میں عزم استحکام لائی جائے بہرحال یہ ایک علیحدہ سے سوال اور تقاضا ہے جہاں تک انسداد دہشتگردی کی مساعی کا تعلق ہے یہ طویل عرصے سے جاری عمل ہے صرف اس کا اختتامی باب رقم کرناباقی ہے ملک کے اندر تو مختلف آپریشنز کرکے تطہیری عمل کی تقریباً تکمیل ہوچکی جو اکا دکا واقعات پیش آرہے ہیں اس میں اگرچہ قیمتی انسانی جانوں کی قربانی ہو رہی ہے لیکن یہ واقعات اس لئے قابل ذکر نہیں کیونکہ اس سے دہشتگردوں کی مرکزیت ظاہر نہیں ہوتی او نہ ہی ان کے کسی منظم منصوبہ بندی سے کسی علاقے میں ماضی کی طرح بڑے پیمانے پر سامنے آنے کے واقعات ہو رہے ہیں بلکہ سکیورٹی فورسز حساس معلومات پر ان کے صفایا کی مہم چلا رہی ہیں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے مزید مساعی سے انکار ممکن نہیں البتہ اس طرح کے واقعات کا مکمل طور پر اعادہ نہ ہونے دینے میں بہرحال وقت لگے گا جس کا تقاضا ہے کہ صفایا کی اس مہم کونئے خطرات کے ادراک کیساتھ جاری رکھا جائے اور اس امر کو بہرحال یقینی بنایا جائے کہ خدانخواستہ دہشتگردی عود کر نہ آئے اس کا امکان نہ ہونے کے برابر سہی مگر اس طرف بہرحال پوری توجہ مبذول کرنا ہی بہتر حکمت عملی کا تقاضا ہوگا جہاں تک اس طرح کے واقعات کی مکمل تکمیل اور صورتحال پرمکمل طور پرقابو پانے کا سوال ہے ملک میں اس حوالے سے یکے بعد دیگرے کامیاب آپریشنز کے باوجود بھی عدم بیخ کنی کی وجہ سرحد پار موجود دہشتگردوں کے وہ ٹھکانے ہیں جن کا بدقسمتی سے سدباب کی بجائے حوصلہ افزائی و تحفظ کا عمل جاری ہے اس ضمن میں بار بار پڑوسی ملک کی حکومت کو متوجہ کیا گیا مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے پرانے اتحادیوں سے راہیں جدا کرنے کو تیار نہیں یا پھر وہ اس کی متحمل نہیں کم از کم ان عناصر کو اپنی سرزمین استعمال کرکے پڑوسی ملک میں دہشتگردی میں ملوث نہ ہونے کو ہی یقینی بنایا جائے تو معاملات سلجھانے کی گنجائش ہے مگر برعکس صورتحال جن مشکلات کا باعث بن رہا ہے وزیر دفاع نے صریح الفاظ میں اس حوالے سے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق گرم تعاقب کے اقدام کا عندیہ دیا ہے لیکن یہ کوئی اچھا انتخاب اور فیصلہ نہ ہو گا کہ پاکستان کی جانب سے ان اقدامات کی پیروی ہو جو امریکہ اور نیٹو ممالک نے اختیار کیا تھا بہتر صورت یہی نکل سکتی ہے کہ افغانستان کی حکومت اس کی نوبت نہ آنے دے اور اپنے علاقوں میں موجود ان عناصر کو لگام دیں اور ان کو اس امر کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ دوسرے ملک میں دہشتگردی کی منصوبہ بندی کریں ایسا نہ ہونے کی صورت میں بامر مجبوری جو صورتحال بن سکتی ہے وہ دونوں ملکوں کے لئے اچھا نہ ہو گا جس سے بچنے کی آخری دم تک طرفین کو کوششیں کرنی چاہئیں۔

مزید پڑھیں:  عوام کْش''تاریخ ساز''وفاقی بجٹ