میں تیرے شہر گرفتار سے باہر آیا

ترکی بہ ترکی اسے ہی تو کہتے ہیں ، حالانکہ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی یعنی وہ جو ایک فلمی شاعر نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”کہیں پہ نگاہیں ، کہیں پہ نشانہ” اور اسے اگر بلیک میلنگ سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہو گا کندھا تحریک انصاف کا مگر اصل نشانہ کچھ اور وہ دن ہوا ہوئے کہ امریکی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے دنیا بھر میں ان اقوام کے ”رہنمائوں” کو بوجوہ اس کی ”نظر کرم” کے آگے بچھے بچھے جاتے تھے ، ایک ”ٹیلی فونک تڑی” پر نہ صرف اس کے جملہ مطالبات ماننے پر مجبور ہوجاتے تھے بلکہ وہ ”مراعات” بھی دے دیتے تھے جن کا تقاضا تک امریکہ نے نہیں کیا ہوتا ، اس حوالے سے ہماری تاریخ”شرمناک سجدہ ریزیوں” کے واقعات سے بھری پڑی ہے ، ماضی میں جھانکا جائے تو مختلف ممالک میں ”من مرضی” کی تبدیلیاں لانے کے لئے ایک خاتون ستارہ شناس جین ڈکسن سے مطلوبہ ملک کے اندرممکنہ تبدیلیوں کے حوالے سے نئے سال کی آمد سے پہلے پیشگوئیاں کرائی جاتیں اور پھر سی آئی اے ”دل و جان” سے اپنے ان منصوبوں پر عملدرآمد پر ڈٹ جاتی ، اب یہ ان ممالک پر منحصر ہوتا کہ وہ اس قسم کی مبینہ سازشوں کا کس طرح اور کس حد تک ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی قوت رکھتیں مگر جب سے جین ڈکسن کا انتقال ہو چکا ہے امریکہ نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرکے متعلقہ ممالک کی اہم قیادت کو ”کھلم کھلا بلیک میل” کرنے کی راہ اختیار کر رکھی ہے اس لئے یہ جو گزشتہ روز کانگریس میں پاکستان کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے ایک قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرکے پاکستان کو ”تڑی” لگانے کی کوشش کی گئی ہے اس کا بظاہر پہلو تو جیسا کہ دکھائی دیتا ہے وہی نظر آتا ہے مگر ایک بھارتی ڈرامے ”عدالت” کے مرکزی کردار ماہر قانون کے ڈی پھاٹک کا مشہور جملہ ہے یعنی ”جو دیکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں” تو یہاں بھی وہی صورتحال ہے امریکی یہودی لابی نے برطانیہ کے ایک انتہائی بااثر یہودی خاندان کے (ہر قسم کے) دبائو میں آکر جس طرح امریکی کانگریس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بظاہر تو پاکستان کے انتخابی عمل کونشانہ بنانے سے اپنے مقاصد کی تکمیل کی ہے تاہم جس طرح اوپر کی سطور میں گزارش کی ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے ، اور اصل صورتحال وہی ”کہیں پہ نگاہیں ، کہیں پہ نشانہ” والی ہے یعنی جو ظاہر دکھائی دے رہا ہے حقیقت میں وہ نہیں (اس کا ایک پہلو ضرور ہوسکتا ہے ) اور جو اصل بات ہے اس پر دھند چھائی ہوئی ہے یعنی وہ دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ ایک کھلم کھلا بلیک میلنگ کا معاملہ ہے جس کے اندر امریکہ کا ا صل دکھ چھپا ہوا ہے اور اب تک تلملاہٹ اور کرب کی جس کیفیت سے وہ دو چار تھا یعنی اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا اس قرارداد نے جو پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت ہے اسے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع فراہم کر دیا ہے تاہم جو بظاہر دکھتا ہے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور ہونے والی جوابی قرارداد میں نہ صرف امریکہ ، بھارت بلکہ تمام اقوام پر جو پاکستان کے خلاف اپنی بدباطنی کا کوئی موقعہ ضائع ہونے نہیں دیتیں واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت برداشت نہیں کی جا سکتی قرارداد میں واضح کر دیا گیا ہے کہ کانگریس کی قرارداد حقائق کے منافی ہے اگرچہ سنی اتحاد کونسل کا نقاب چہروں پر سجا کر بقول فلمی شاعر ایک چہرے پر کئی چہرے لگا لیتے ہیں لوگ کی تفسیر بنے ارکان نے اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے مخالفت ضرور کی جو ان کا حق تو ضرور تھا مگر ان کے اس اقدام سے سیاسی ا خلاقیات کا جنازہ اٹھ گیا اس لئے کہ امریکی کانگریس کی قرارداد کے پیچھے بھی اصل مقاصد کچھ اور تھے یعنی محولہ قرارداد کے اوپر بھی ظاہر نقاب تو پاکستان کے انتخابات پر اعتراضات لئے ہوے تھا جبکہ نقاب کے اندر امریکی مقاصد کا اصل مکروہ چہرہ کچھ اور تھا اسی لئے جوابی قرارداد میں بھی اسی صورتحال پر بات کی گئی ہے مگر اس سے پہلے کہ ہم اس نقاب کو نوچ کر امریکی کرب کی حقیقی صورتحال پر بات کریں گزشتہ روز ہماری سیاسی قیادت نے امریکی قرارداد پر جن خیالات کا اظہار کیا ان کوبھی زیر بحث لایا جائے یعنی بقول یار طرحدار امجد بہزاد
ایک فرعون کے دربار سے باہر آیا
شکر بہزاد میں”سرکار” سے باہر آیا
ایک آزاد پرندہ ہوں جہاں چاہوں اڑوں
میں ترے شہر گرفتار سے باہر آیا
سینیٹ کے سابقہ چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا ہے کہ امریکی قرارداد پاکستان کی آزادی و خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے تاریخ بھری پڑی ہے کہ امریکہ نے مقبول جمہوری حکومتوں کا بستہ گول کرایا مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی پامالی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی پشت پناہی پر امریکہ نے اپنی رہی سہی اخلاقی ساخت بھی کھو دی ہے امریکی کانگریس میں منظور کر دہ قرارداد کی پاکستان کی ریاست پابند نہیں ، کانگریس کے اس اقدام کی پرزور مذمت کی جانی چاہئے پاکستان علماء کونسل نے بھی امریکی قرارداد کو مسترد کر دیا کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں انتخابات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے امریکہ کا اپنا دوہرا معیار اور منافقانہ کردار اس طرح کی قرارداد کے قابل نہیں ، پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحق ڈار نے کہا ہے کہ عام انتخابات سے متعلق امریکی قرارداد بلا جواز ہے جس کا جواب پاکستان کی وزارت خارجہ نے بروقت دے دیا ہے انہوں نے امریکی کانگریس کی قرارداد کے جواب میں جس قرارداد کے لانے کی بات کی تھی اسے گزشتہ روز قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کرکے امریکی مقاصد کو طشت ازبام کردیا ہے تاہم جیسا کہ ہم گزارش کر چکے ہیں کہ امریکی قرارداد کے دو پہلو ہیں ایک تو جو بظاہر دکھائی دیتا ہے اور جس کامقصد یہودی لابی کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے پاکستانی انتخابات کو غبار آلود کرناہے ، مگر عالمی سطح پر ان انتخابات کو تسلیم کئے جانے کے بعد یہ بیانیہ خود بخود دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے دوسرا رخ اس ساری صورتحال کا یہ ہے کہ جب سے سی پیک کے احیاء کے حوالے سے اقدام اٹھائے جارہے ہیں اور پاک چین تعلقات میں ایکبار پھر گرمجوشی کا عنصر غالب دکھائی دے رہا ہے ، امریکہ کو مروڑاٹھنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ اس نے تو اپنے ایک ”مربی” کے ذریعے نہ صرف سی پیک کو لپیٹ دیا تھا بلکہ ان منصوبوں کے تمام خفیہ دستاویزات بھی حاصل کر لئے تھے اور وہ خوش تھا کہ اس نے اس منصوبے کو قصہ پارینہ بنا دیا ہے جبکہ بھارت کو ”بونس” کے طور پر کشمیر کے مقبوضہ علاقے کو ہڑپ کرنے میں بھی مدد فراہم کر دی تھی اور چونکہ امریکہ کو ایک بار پھر مبینہ طور پر یہ پیغام دیا جا چکا ہے کہ اگر دوبارہ اقتدار ملا تو سی پیک کو مکمل طور پر دفن کر دیا جائے گا اس لئے امریکہ اس قسم کی قراردادیں منظور نہ کروائے تو کیا کرے!
کچھ تو خزاں ہے باعث بربادی چمن
کچھ باغبان کا ہاتھ بھی اس میں ضرور ہے

مزید پڑھیں:  عوام کْش''تاریخ ساز''وفاقی بجٹ