مبارک ثانی کیس

مبارک ثانی نظرثانی کیس :فیصلوں سے متنازعہ پیرا گراف حذف

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے مبارک ثانی نظریانی کیس میں وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 6فروری اور 24جولائی کے فیصلوں سے 3متنازعہ پیراگراف 7، 42 اور 49 سی کو حذف کردیا۔
مختصر فیصلے کے مطابق عدالت نے وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے متنازعہ3پیراگراف حذف کردیے۔
سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی جانب سے دائر کردہ نظرثانی اپیل پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مبارک ثانی نظرثانی فیصلے کے خذف شدہ پیراگراف کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
علما اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کے دلائل کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے مختصر فیصلہ سنایاگیا۔
عدالت میں علما کی جانب سے تینوں پیراگرافس کو خذف کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ نظرثانی فیصلے کے خذف کردہ پیراگرافس میں قادیانیوں کی ممنوعہ کتاب، قادیانیوں کی تبلیغ سے متعلق ذکر کیا گیا تھا جبکہ دوران سماعت مولانا فضل الرحمان نے عدالت میں رائے دی تھی کہ سپریم کورٹ صرف خود کو ضمانت تک محدود رکھے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے فیصلے میں درستگی کیلئے رجوع کیا گیا، عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بھیجی گئی سفارشات کا بھی جائزہ لیا۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں نظرثانی درخواست پر مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان اور دیگر علما کی معاونت حاصل کرتے ہوئے غلطیوں کی نشاندہی کی درخواست کی تھی
سماعت کے دوران ترکیہ میں موجود مفتی تقی عثمانی وڈیو لنک کے ذریعے آن لائن شریک ہیں جب کہ مولانا فضل الرحمان، اٹارنی جنرل اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے ۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مبارک ثانی کیس کی نظرثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اور علما کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، کہا گیا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات کی گئیں تھی، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہوسکتی،اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے درخواست آئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی جانب سے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے گئے تو فریقین عدالت میں اور ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں، کیونکہ معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن مجبور ہوں، میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے، انسان اپنے قول فعل سے پہچانا جاتا ہے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے، آئین کی 50 ویں سالگرہ پر میں خود پارلیمنٹ گیا۔
سپریم کورٹ نے عدالت میں موجود مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد اور دیگر موجود علما سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا، ابو الخیرمحمد زبیر جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے مفتی تقی عثمانی سے بھی معاونت کا کہا تھا وہ ترکیہ میں ہیں، ہم نے مفتی منیب الرحمان کو آنے کی زحمت دی وہ نہیں آئے۔ اس پر مفتی منیب کے نمائندے نے کہا کہ مجھے مفتی منیب الرحمان نے بھیجا ہے۔
دوران سماعت علامہ تقی عثمانی نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے 29 مئی کے فیصلے سے دو پیراگراف حذف کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ فیصلے کے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کردیا جائے۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ پیراگراف 42میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا یعنی غیر مشروط اجازت دی، چیف جسٹس نے سیکشن 298 سی پڑھ کر سنایا، سیکشن کے مطابق غیر مسلم کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے تبلیغ کی اجازت نہیں، قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت سارے دستاویزات ملے، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہیں سکا وہ میری کوتاہی ہے۔
، عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں، میں غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 6فروری کا فیصلہ نظرثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، میرا موقف ہے کہ ہم امریکا برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں؟ کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ آپ فیصلے میں طے شدہ مسائل سے زیادہ اصل مسئلہ کو وقت دیتے، آپ نے فیصلہ کے پیراگراف سات میں لکھا کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا تھا، تاثر مل رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔
بعدازاں سماعت میں کچھ دیرکا وقفہ کیا گیا پھر سماعت شروع ہوئی تو عدالتی معاون صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے دلائل دیے۔ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے کہا کہ آپ نے سارے راستے بند کروائے ہوئے ہیں بڑی مشکل سے حیدرآباد سے یہاں پہنچا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے راستے بند نہیں کروائے۔
دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں اراکین پارلیمنٹ کے طور پر سنا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کھوسہ صاحب!پارلیمنٹ بہت بااختیار ہے، پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی ختم کرسکتی ہے اور آپ تو پارلیمنٹ سے فیصلہ ختم بھی کراسکتے ہیں۔
پروفیسر ساجد میر کے نمائندے حافظ احسان کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت پیراگراف حذف کرنے کے بجائے نیا فیصلہ تحریر کرے، کوئی پیراگراف رہ گیا تو مزید ابہام پیدا ہوگا، عدالت مبارک ثانی کیس میں اصلاح اپنے ابتدائی فیصلے سے شروع کرے۔
مولانا فضل الرحمان حافظ احسان کھوکھر کے نکتے کی حمایت میں روسٹم پر آ گئے اور کہا کہ مناسب یہی ہے کہ عدالت مبارک ثانی کیس میں دونوں فیصلے کالعدم قرار دے، نہیں چاہتے کہ عدالت کے فیصلے میں ابہام کا کوئی فائدہ اٹھائے، سب ہی علما اس تجویز سے متفق ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ نے کہا کہ قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں مانتے اسی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے، قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان کہنا جرم ہے، قادیانی چاہے تشہیر گھر کی چاردیواری میں کریں یا باہر وہ جرم ہے، قتل گھر کے اندر ہو یا باہر دونوں صورتوں میں جرم ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن صاحب نے جو تفصیلات رکھی اس کے علاوہ کوئی نئی بات ہے تو بتائیں۔
فرید پراچہ نے کہا کہ یہ صرف مبارک ثانی کیس کا معاملہ نہیں بلکہ سو سالہ جہدوجہد اور تاریخ کا معاملہ ہے، عدالتی فیصلے کے پیرا 37،38،39،40،اور 49 سی میں کا بھی دوبارہ جائزہ لیں۔
مذہبی اسکالر عطا الرحمن نے کہا کہ کچھ چیزیں قابل تعریف ہیں ان کا ذکر ہونا چاہیے، آپ عدالتی فیصلوں پر قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا معاملہ قابل تحسین اقدام تھا، شریعت اپیلیٹ بنچ کئی عرصے سے التوا تھا اسے آپ نے مکمل کیا، مبارک ثانی کیس میں ہمیں امید ہے یہ آخری موقع ہوگا اور مناسب فیصلہ آئے گا۔
عطا الرحمن نے کہا کہ قادیانیوں کا مسئلہ یہ ہے وہ تو آئین پاکستان کو ہی نہیں مانتے، قادیانی ابھی بھی تفسیر صغیر کی تشہیر کررہے ہیں،
عطا الرحمن نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ہم دیگر علما کی طرح متفق ہیں، مسلمانوں کے جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کے مطابق حقوق دو صورتوں میں ملیں گے؟ قادیانی خود کو غیر مسلم تصور کریں یا پھر ختم نبوت کو مان لیں؟
عطا الرحمن نے جواب دیا کہ آئین کہتا ہے قرآن اور سنت کے برعکس کوئی قوانین نہیں بن سکتے۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو خود کو صرف ضمانت کی حد تک محدود رکھنا چاہیے تھا، آپ سپریم کورٹ میں دوسری بار نظرثانی سن رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دوسری نظرثانی نہیں ہے اس پر فضل الرحمان نے کہا کہ پھر یہ نظرثالثی ہوگی، 72 سال عمر ہوچکی ہے پہلی بار عدالت میں کھڑا ہوا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مولانا صاحب! ہم اتنے بھی برے نہیں ہیں، میرے والد کے انتقال پر آپ کے والد مفتی محمود ہمارے گھر میں تعزیت کیلئے آئے تھے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کیلئے پارلیمنٹ نے 1974 میں ایک کمیٹی بنائی، کمیٹی کے فیصلے کو پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر آج تک جاری نہ کیا جاسکا، ہم نے پارلیمنٹ کو کچھ کہا تو یہ مداخلت ہوگی۔
روسٹرم پر کھڑے افراد ایک ساتھ بول اٹھے اس پر چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ مولانا صاحب آپ بڑے ہیں انھیں سمجھائیں اس پر فضل الرحمان نے کہا کہ یہ آپ کی عدالت ہے یہاں آپ کا حکم چلتا ہے۔

مزید پڑھیں:  وفاقی حکومت کا 6وزارتیں ،ڈیڑھ لاکھ ملازمتیں ختم کرنے کا اعلان