محمود خان کے خلاف عدم اعتماد

محمود خان کے خلاف عدم اعتماد میں کامیابی جوئے شیر لانے کے مترادف

ویب ڈیسک : خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیر اعلیٰ محمود خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی انتہائی مضبوط پوزیشن کے سامنے اپوزیشن بے بس دکھائی دے رہی ہے جبکہ تحریک عدم اعتماد اسمبلی کی تحلیل کو صرف چند روز کیلئے ٹالنے کے سوا کچھ اور ثابت نہیں ہوسکتی ۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اس وقت تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 95ہے جو تقریبا دو تہائی بنتی ہے انہیں مسلم لیگ( ق) کے ایک رکن اسمبلی کی حمایت بھی حاصل ہے
جو انکی مجموعی تعداد کو 96بنا دیتی ہے اپوزیشن کی تعداد اس وقت 46ہے جس میں سب سے زیادہ جمعیت علماء اسلام کے 15، عوامی نیشنل پارٹی کے 11، مسلم لیگ ن کے 7، پیپلز پارٹی کے 6 اور بلوچستان عوامی پارٹی کے 4ممبران ہیں۔ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 3جبکہ آزاد ممبران کی تعداد بھی 3ہے۔ جماعت اسلامی کسی بھی اتحاد کا حصہ نہیں ہے جبکہ تین آزاد ممبران بھی سینٹ انتخاب میں پی ٹی آئی کا ساتھ دے چکے ہیں۔ ان آزادممبران میں فیصل زمان ایم پی اے ہاسٹل سے فرار ہوچکے ہیں اور ان پر قتل کا مقدمہ چل رہا ہے لہٰذا وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے باقی دو آزاد ممبران کو بھی حکومتی پلڑے میں شمارکیاجائے تو حکمران اتحاد کی تعداد 98ہوجاتی ہے ۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے تین ارکان باغی ہوچکے ہیں نوشہرہ سے منتخب لیاقت خٹک جمعیت علماء اسلام جبکہ چارسدہ سے منتخب سلطان محمد خان عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ پشاور سے منتخب انجینئر فہیم احمد نے اب تک پارٹی نہیں چھوڑی ہے اور وہ کسی دوسری پارٹی کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ اگر ان تین ممبران کو منفی کردیا جائے تو وزیر اعلیٰ کو 95ممبران کی حمایت حاصل ہے۔ پی ڈی ایم اگر جماعت اسلامی کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو انکی تعداد 46ہوجائیگی اور پی ٹی آئی کے باغی تین ممبران کی حمایت سے یہ تعداد 49تک پہنچ جائیگی تاہم انہیں عدم اعتماد کامیاب بنانے کیلئے 73ووٹ درکار ہیں جس کیلئے انہیں مزید 24ارکان کی حمایت حاصل کرنی ہوگی 24ارکان کی حمایت حاصل کرنا کسی سرپرائز سے کم نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  عبدالحفیظ شیخ کو کرپشن ریفرنس میں بڑا ریلیف مل گیا