چین کی موجودہ ترقی کا پوشیدہ راز

چند دن پہلے ایک خبر نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا کہ چین اب ٹیکنالوجی پر تحقیق ، قدرت اور پیداوار میں امریکہ سے آگے نکل گیا ہے ۔ یہ بظاہر تو ایک عام سی خبر ہے مگر ترقی یافتہ دنیا کے لوگوں کے لیے یہ خبر ناقابل یقین تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی دولت کا چالیس فیصد ٹیکنالوجی کی تحقیق اور کاروبار پر خرچ کررہا ہے اور امریکہ میں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹیاں جہاں سے یہ امریکن کمپنیاں ان ٹیکنالوجیز میں جدت پیدا کرکے پوری دنیا کی ٹیکنالوجی کی مارکیٹ اور ضروریات کو قابو میں رکھ رہے تھے اور اسی کے بدولت سالانہ ٹریلین ڈالرز دنیا سے گردش کرکے امریکہ آتے تھے ۔ امریکہ نے یہ مقام ایک دن میں حاصل نہیں کیا اس کے لیے امریکہ کی حکومت ، سائنس دانوں ، یونیورسٹیوں اور سرمایہ کاروں نے سو برس سے زیادہ محنت کی تھی ۔اس کام میں امریکہ کی گزشتہ و موجودہ پانچ نسلیں شامل تھیں اور دنیا بھر سے لاکھوں ماہرین کو امریکہ میں پرکشش مراعات و سہولیات و شہریت دے کر اس مقام کو برقرار رکھا گیا تھا ۔ جبکہ چین نے اس میدان میں صرف بیس برس پہلے قدم رکھا تھا ۔ بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ چین نے یہ ترقی کیسے کی ہے ۔ پچیس برس پہلے چین کے دانشوروں اور حکومت نے ایک منصوبہ بنایا کہ ٹیکنالوجی کی نقل شروع کریں گے جس طرح دنیا کے دیگر ممالک کرتے ہیں ۔ جو امریکہ اور جاپان نے بنایا اسی کو دیکھ کر یا اسی فارمولے پر اسی طرح کی چیز یں بنا کر دنیا میں ان سے تین گنا کم قیمت میں فروخت کرنے کا کام شروع کیا ۔ اس لیے آپ آج بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی برانڈ کی چیز ہو اس کی چائنا کاپی آپ کو دستیاب ہوجاتی ہے ۔ لیکن 2004 میں چین نے اپنی اس حکمت کو بتدریج بدلنے کا فیصلہ کیا اور ٹیکنالوجی میں خود سے ترقی کا سفر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چینی یونیورسٹیوں او ر انڈسٹری کے پاس وہ افرادی قوت نہیں تھی جو اس کام کو سرانجام دے سکے اور نہ چینی یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ تھے جو نئی نسل کی تربیت کرسکیں ۔ اس کا حل نکالنے کے لیے چین نے2008تک چار لاکھ افراد کو اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لیے امریکہ اور دیگر ٹیکنالوجیکل ایڈونس ملکوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کام پر اربوں ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا اور ان افراد کو امریکہ اور یورپ کی بڑی یونیورسٹیوں اور لیبارٹریوں میں بھیجا گیا ۔ یوں 2009 سے چین میں وہ افراد جو دنیا کی ان یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آئے تھے اور جدید تحقیق کے اصولوں سے آشنا ہوگئے تھے ۔انہوں نے اپنے کا م کا آغاز کردیا دوسری طرف چین نے امریکہ اور دوسرے ممالک میں اپنے شہریوں کو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم خصوصاً ریاضی کی جدید تعلیم کے لیے اور زیادہ افراد کو اسکالرشپ اور مدد دینی شروع کی یوں چین بھی امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنے ریسرچ بیسڈ پراڈکٹ بنانے لگا ۔ وہ شعبے جن میں اس سے پہلے چین نے کوئی کام نہیں کیا تھا ان میں بھی اسی افرادی قوت کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر پیش رفت شروع کردی۔ یہ عمل بہت زیادہ تیز نہیں تھا اس لیے 2015 تک دنیا نے اس کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ۔ مگر جب امریکہ نے 2015 میں پہلی مرتبہ بڑی بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں کو آنکھیں دکھانا شروع کی تو امریکہ اور یورپ کو احسا س ہوا کہ اب چین بھی ان کے مقابلے میں پر تول رہا ہے مگر آپ اس کے بعد امریکن تھنک ٹینک کے تجزیے اور رپورٹس جو شایع ہوتی رہی ہیں وہ دیکھ لیں تو ان سب کا دعویٰ تھا کہ چین امریکہ کے مقابلے میں 2050 سے پہلے نہیں آسکتا اس لیے کہ ٹیک کمپنیوں میں امریکہ کی سرمایہ کاری اور دنیا میں ان کی قبولیت چینی کمپنیوں سے کئی ہزار گنا زیادہ تھی اور وہ دنیا کی مارکیٹ کے ساٹھ فیصد سے زیادہ پر اکیلے قابض تھے ۔اور چونکہ انہیں اسرائیلی سرمایہ کاروں ، کمپنیوں اور سعودی سرمایہ کاروں کی پشت پناہی حاصل تھی اس لیے ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ چین یوں اچانک ان سے یہ حیثیت چھین لے گا ۔چین کی ٹیکنالوجی کی رفتا ر کو کم کرنے کے لیے امریکہ نے ہواوے کمپنی پر پابندیاں بھی لگائیں اور کئی دوسری ابھرتی چینی ٹیک کمپنیوں کے راستے میں روڑے اٹکائے مگر امریکہ ان کا راستہ نہ روک سکا۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوسکا کہ چینیوں نے جدید تعلیم اور تحقیق پر توجہ دی اور اس پر کثیر سرمایہ کاری کی اتنی سرمایہ کاری جس کا پاکستان جیسا ملک تصور بھی نہیں کرسکتا ۔اس کا ان کو دھرا فائدہ ہوا انہیں ٹیکنالوجیز پر کام کرنے والے ٹرینڈ لوگ مل گئے اور چینی یونیورسٹیوں اور لیبارٹریوں کو ماسٹر ٹرینر بھی مل گئے یوں انہوں نے خود کو بیس برسوں میں ان کے برابر لا کھڑا کیا ۔جبکہ اسی دورانیے میں پاکستان سے بھی ہائرایجوکیشن کمیشن پاکستان نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو باہر پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بھیجا جن میں کچھ واپس آگئے کچھ وہیں رہ گئے لیکن ان کو کس مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا اور ان سے کیا کام لینا تھا یہ پاکستان میں کسی کوپتہ نہیں تھا ۔ بس سرکاری اربوں روپے خرچ کرکے رشتہ داروں اور لوگوں کو دنیا کے یونیورسٹیوں میں بھیجنا تھا اور ان کو ایک ڈگری دلوانی تھی پی ایچ ڈی کی یہ نہیں سوچا گیا کہ ہمیں کن لوگوں کی کن کن شعبوں میں ضرورت ہوگی ان کو بھیج کر ان کی تربیت کرواکر ان سے کیاکام لینا ہے۔ یہ ہزاروں پی ایچ ڈیز جب پاکستان واپس آئے تو ان سے کام لینے کی جگہ ان کو سطحی نوعیت کی انڈرگریجویٹ کورس پڑھانے پر لگا دیا گیا ۔ ان میں سے بیشتر نے جن موضوعات پر پی ایچ ڈی کی تھی ان کا کوئی سلسلہ یا لیبارٹریاں پاکستان میں تھی ہی نہیں ۔جو لیبارٹریاں بنائی گئیں اور جو آلات اور مشینیں خرید ی گئیں ان میں سے بیشتر کو زنگ لگ گیا ۔یہ ہے ترجیحات چین نے اپنے ترجیحات کا تعین کیا اور اپنی نسلوں کی تربیت کی اور آج وہ امریکہ سے آگے نکل گئے اور ہم نے اپنی نسلوں کو تربیت دینے اور اپنی ترجیحات کا تعین کر نے کے اور ترقی کی جگہ اس مد میں بھی کرپشن کی اور ملک کا کثیر سرمایہ ضایع کیا اور تعلیم اور تحقیق کو ایک بے کار عمل سمجھ کر اس کے ساتھ کھلواڑ کیا اس لیے معاشی ، انتظامی اور مالی طور پر ہم تقریباً غرق آب ہوچکے ہیں ۔ چین نے تعلیم اور مقصدی تعلیم سے جس تیزی کے ساتھ فائدہ اٹھایا ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی ۔ جنوبی کوریا نے بھی تعلیم اور تحقیق کی بدولت ترقی کی ہے اور کررہی ہے ۔ پاکستان کو بھی اگر واپس ترقی کی راہ پر لانا ہے تو حکومت کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنے ہوں گے اور اشرافیہ کی شاہ خرچیاں ختم کرکے وسائل کو تعلیم اور تحقیق پر لگاناہو گا ۔ ورنہ ہم وہ بھوک اور افلاس دیکھیں گے کہ شاید دنیا نے تاریخ میں نہ دیکھی ہو۔

مزید پڑھیں:  بی آر ٹی بسوں میں خواتین کی ہراسگی